1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. عبوری صوبہ گلگت بلتستان؟

عبوری صوبہ گلگت بلتستان؟

پاکستان آزادکشمیر میں خصوصاًاور سارے برصغیر میں بالعموم ایسا مزاج چلا آ رہا ہے خلق خدا کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری پر جواب دہی کے بجائے زرہ سی بات کو فسانہ بنا کر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کر دیا جاتا ہے پاکستان میں اسلام و ایمان کے تقاضوں کا فائدہ اُٹھا کر یہ کھیل کھیلا جاتا رہا اور آزادکشمیر میں نام تحریک کشمیر ایسا مظلوم چلا آ رہا ہے جس کا سہارا لے کر اس کے حقیقی مقاصد کیلئے کچھ کیا جائے نہ کیا جائے امگر اپنے اپنے مقاصد مفادات کیلئے راگ چھیڑ کر زلزلے کے فوراً بعد والا ماحول ضرور بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ وزیراعظم وقت سکندر حیات نے خود کو قبرستان کا وزیراعظم قرار دے کر واضح کر دیا تھا ہم کچھ نہیں کر سکتے جو کچھ کرنا ہے اسلام آباد نے کرنا ہے تاہم یہاں والے دارالحکومت لے جانے کے منصوبے ضرور بنا چکے تھے جبکہ قبرستان کا مطلب سارے نظام کی نااہلی ناکامی تھا حالانکہ زلزلے نے کم علاقوں آبادی کو متاثر کیا تھا زیادہ صحیح و سلامت تھے مگر مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کی بنیاد پر یہاں ریاست جیسا نظام چاروں شانوں چت ہو گیا تھا جو صرف مراعات مفادات یافتہ عناصر کا محافظ رہا بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا جو کھودا تو ایک خطرہ لہو بھی نہ نکلا۔ 13 ویں ترمیم کے بعد بھی نظام کا پہلے والا رحجان عادات کا غلبہ ہونے۔ جس کے سبب بیمار اس عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں کی تشریح کر رہا ہے کیوں کہ یہ نسل در نسل مراعات یافتہ مفادات سے وابستہ عناصر کی تابع خوشنودی لونڈی ہے ورنہ 6 ارب کے سیوریج سسٹم کی ناکامی کے بعد 1970 ؁ء سے پہلے کی لائنوں کی بحالی سے عزت بچانے کی ضرورت نہ پڑتی جس کی بربادی کے کے ذمہ دار کل والوں کی طرح آج والوں کی بھی آنکھ کا تارا ہیں ہمیشہ سے ایسی ہزاروں تقرریاں تعیناتیاں ٹھیکے قبضے سب کچھ مال مفت دِل بے رحم کی طرح نگلنے والوں کو چھیڑا گیا تو تحریک کشمیر خطرے میں آ جاتی ہے ایسے نظام کو گلگت بلتستان والوں کیلئے بھی تجویز کرنا شریک جرم کرنے کے علاوہ کیا معنی رکھتی ہے وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور کے صدارت میں 27نومبر کو ایک اجلاس ہوا جس میں گورنر، چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ان کے دیگر حکام اور جوائنٹ سیکرٹری وزرات امور کشمیروگلگت بلتستان کونسل کے علاوہ اٹارنی جنرل پاکستان سیکرٹریز شریک ہوئے اور وزیر قانون فرخ نسیم نے خصوصی شرکت کی جس میں گلگت بلتستان کے حوالہ سے ان کو بااختیار اور زیادہ سے زیادہ آئینی انتظامی حقوق دینے کے مطالبات و سفارشات پر غور کیا گیا ہے فرخ نسیم نے بتایا اس کے ساتھ جڑے عالمی قومی تقاضوں کو پیِش نظر رکھنا لازم ہے جس کے لیے مزید وقت لگے گا۔ جس کے بعد، چیئرمین جموں و کشمیر گلگت بلتستان کونسل (وزیراعظم پاکستان) عمران خان کی منظوری سے سرتاج عزیز کمیٹی کی گزشتہ سفارشات اور گلگت بلتستان کی لیڈر شپ کی تجاویز کو کابینہ اجلاس میں زیر غور لایا جاسکے گا، جس کا گلگت بلتستان کی تمام جماعتیں، مکاتب فکر عوام خیر مقدم کر رہے ہیں اس کا عنوان ان کی ستر سالہ جدوجہد کے بعد عبوری صوبہ بنا ہے کہ وہ سب اختیار حقوق دیئے جائیں جو پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں مگر اس کی تفصیل سے پہلے ہی آزادکشمیر میں شور برپا شروع ہو گیا ہے جس کا ہمیشہ کی طرح کوئی سر پیر نہیں ہے، ماسوائے مخالفت برائے مخالفت کی عادت پوری کی جا رہی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت اپوزیشن مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی تحریک انصاف مجلس وحدت مسلمین سمیت تمام سیاسی مذہبی جماعتوں اور گلگت بلتستان بار کونسل ہائی کورٹ کونسل ڈسٹرکٹ بار کونسلز نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرتے ہوئے بیان بازی کی مذمت کرتے ہوئے آزادکشمیر کو اپنے آئینی انتظامی حقوق کے سلب ہونے کا نہ صرف ذمہ دار قرار دیا بلکہ حکومت پاکستان کو خبردار کیا ہے اگر نواز شریف دور میں سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے مطابق عبوری صوبے کے معاملہ میں تاخیر اختیار کی گئی یا اس کے منافی کوئی بھی بات کی گئی تو ہم یہ سفارشات لے کر سپریم کورٹ پاکستان بھی جائیں گے اور گلگت بلتستان میں احتجاجی تحریک بھی برپا کریں گے یہ صورتحال آزادکشمیر کے تمام سیاستدانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کا بیان بازی کا شوق خرابی کا باعث بن رہا ہے نہ کہ اس کا حل ہو سکے گا خودیہاں آزادکشمیر میں پاکستان کے مرکز سے لے کر صوبوں تک اوپر سے نیچے تک مراعات سہولیات میں اضافہ ہو تو سب سے زیادہ والے کی مثال یہاں اختیار کر لی جاتی ہے حتیٰ کہ اسرائیل مقبوضہ کشمیر اسمبلیوں کا پنشن کا قانون دلدار بنا لیا جاتا ہے ہر وہ کام جو پاکستان میں ہو یہاں بھی مطالبہ ہو جاتا ہے بین الاقوامی پروگرام ہوقومی سکیم ہو یا سی پیک ہو مگر عام آدمی کی بات آ جائے تو تحریک آزادی کا باجا بجا دیا جاتا ہے پوڈر کے نیٹ ورک سے لے کر چوری کی گاڑیاں ہوں یا کرپشن کے ٹھیکیدار ہوں ایف آئی اے اینٹی نار کوٹکس کو ہاتھ ڈالنا ہو تو متنازعہ حیثیت کا نعرہ بلند ہوتا ہے اگر یہ تحریک آزادی ہے تو یقیناًگلگت بلتستان والوں کو نہیں چاہیے آزادکشمیر کا آئین عبوری ہے حکومت عبوری ہے مراعات مفادات والوں کا سب کچھ صوبہ جیسا ہے مگر عام آدمی کیلئے آدھا تیتر آدھا بٹیر ہو جاتا ہے قول و فعل کے تضاد کا مجموعہ ہونے سے نہ ہونا بہتر ہے اگر واقعی مخلص ہیں تو گلگت بلتستان کیلئے پائیدار قابل عمل حل بتائیں اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی لے آئیں دنیا کے نظاموں کے آئین انتظام اور مثالیں بھی سامنے رکھیں اور مل بیٹھ کر باضابطہ غور وفکر کی نشستوں کا انعقاد کریں گلگت بلتستان کی پارلیمانی سیاسی قیادت ممبران مکاتب فکر کو یہاں بلائیں یا خود سب کو لے کر وہاں جائیں تاکہ اعتماد بحال ہو اور مسئلہ کا قابل عمل حل بھی مل سکے دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو کا حل نہ ہو اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی انسانی آئین ضابطہ لوگوں کی فلاح وبہبود میں رکاوٹ نہیں بنتا ہے گلگت بلتستان والے جس طرح آزادکشمیر کا آئین عبوری ہے انتظام عبوری ہے اسی طرح عبوری صوبہ آئین پاکستان میں کشمیر کی شق کو مقدم رکھتے ہوئے حقوق حاصل کرلیتے ہیں تو ان کی ترقی خوشحالی اور بڑے ایوانوں میں موجودگی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے اچھی مثال اور طاقتور آواز ثابت ہوسکتی ہے۔