1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. الوداع نصیر اعوان

الوداع نصیر اعوان

یہ دنیا کھیل تماشہ ہے یہاں انسان ایک امتحان کے لیے آتا ہے اور پھر اس نے واپس چلے جانا ہے اس منزل کی جانب جس کا پہلا دروازہ موت یعنی اس عارضی دنیا سے ہمیشہ کی زندگی والی دنیاکی طرف منتقلی کے سفر کا آغاز ہے جس کے بعد ہی میرے پیار ے نبی ﷺ کا دیدار، سعادت، شفاعت اور رحمان ورحیم رب سے ملاقات کی معراج نصیب ہوتی ہے موت کا ذائقہ مسلمان ہو یا کافر ہو ہر انسان نے اپنی زندگی کے مقررہ وقت کے آخری لمحہ چکھناہے۔ تاہم مسلمان کے لیے ناقابل تصور ناقابل بیان حد تک عظیم تر سعادت یہ ہے رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ کا امتی ہے رب کی کسی بھی ذرہ بھر نعمت رحمت کا شکریہ اد ا نہیں کرسکتا اس سعادت کے لیے تاقیامت سجدے میں رہے پھر حق شکر ممکن نہ ہے۔

پیارے نبی ﷺ کا دیدار سعادت شفاعت ہوگی یہ ضمانت ہے اللہ رحمان ورحیم سے ملاقات ہوگی۔ جسکی منزل کے سفر کاپہلا دروازہ موت ہے یعنی بڑی نعمت اور رحمت ہے اس منزل کی جانب اپنے خاندان کے سکون اورستون علاقے کی پہچانوں میں ایک نمایاں چہرہ اور انکی آوازمیرے سمیت بہت ساروں کے رفیق محمد نصیر اعوان بھی سفر شروع کرچکے ہیں وہ ہم سے پہلے چلے گئے ہم نے بھی اپنے وقت پر یہ سفر شروع کرنا ہے تاہم انکے خاندان سمیت تمام رفیقوں کو یہ احساس شدت سے انکی یاد کراتارہے گا جن جن سے انکا تعلق تھا وہ وہ ایک مخلص پیارے تعلق سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ تمام چیزیں حالات جن کے بارے میں آج کے معاشرے میں بدقسمتی سے خامیوں یا محرومیوں کے طو ر پر لیا جاتاہے درحقیقت یہ وہ خوبیاں ہیں جو موت کے بعد کے سفر میں رکاوٹوں مشکلا ت کو دور کرکے صاف راستہ بنانے کا انمول ذریعہ ہے اس بہت ہی سادہ اور اپنی زندگی میں صرف اسقدر اسباب جتنا سانس لینے اور گزر بسر کرنے کے لیے لازمی ہے ان میں سر اٹھا کرایام پورے کرلیناہی اصل کامیابی ہے۔

محمد نصیر اعوان اسی اعلی خوبی سمیت اپنے تعلق واسطے والوں کیلے اپنی صلاحیت بساط کے اندر رہتے ہوئے کا م آنے اور پھر جن سے گہرا تعلق بن جائے اس کے ساتھ ایثار قربانی کا دریا بن کر مستقل کھڑے رہنے والے اعلی ظرف صفات کے مالک کا نام رہاہے اپنی پیشہ وارانہ صحافتی زندگی میں روزنامہ پاکستان کے بعدروزنامہ سیاست میں 16سال وابستگی کے دوران اسے اپنا گھر اور خاندان عملی معنوں میں سمجھتے ہوئے حق ادا کیا اپنی مقررہ، ذمہ داری کے علاوہ باقی سب کا ہاتھ بٹانے انکی خوشی غم میں شامل رہنے کو عادت بنایا ہواتھا۔ کیوں کہ ان کا ادارہ ان کی پہچان تھا تو وہ بھی اس کی پہنچان تھے جس کا چہرہ صاف ستھرا خوبصورت رکھنے کیلئے اپنی اولاد کی طرح اس کے لیے بھی سرگرم رہنے کی ہر ممکن کاوش کر تے تھے بطور سماج کے ایک حساس فرد شہر ہو یا گاؤں یا پھر گردونواح آبادی ہو جہاں جہاں ان کا سلام کی حد تک بھی تعلق تھا، وہاں وہاں ہر کسی کی وفات پر شریک نماز جنازہ ہونا خاصا رہا، اور لوگوں کی خوشیوں میں شرکت کا موقع بھی ممکنہ حد تک ضائع نہ ہونے دینا معمول رہا۔

ان کے آبائی علاقے کی سڑک سے لے کر ٹھوٹھہ پل تک بنیادی سہولیات کے حوالہ سے بہت سے ناموں میں ان کا نام بھی نمایاں ہے، جنہوں نے قلمی جدو جہد میں اپنا حق ادا کیا، یہاں کے انفرادی، اجتماعی، مسائل، مشکلات کے حل کیلئے قلم کی سیاہی سے آواز بننے میں ذمہ داریاں پوری کرتے رہے، خود میرے لیے ایک سچے مخلص، غم گسار، معاون مدد گار کا کردار بنے رہے، صحافتی سیاست میں میری عہدوں کیلئے شدید خواہش شکر الحمد اللہ کبھی نہیں رہی، مگر ان جیسے اخلاص والے دوستوں خصوصاً ان کا معصومانہ مسلسل اصرار بلکہ ضد ان کی خوشی کیلئے مجبور کر تی تھی کہ ان کی خواہش پر یہ کھیل کھیلتے ہیں، جس میں کامیابی پر ان کو بڑا ناز ہوتا تھا اور دوڑ میں پیچھے رہ جانے پر ان کی آنکھوں کے شبنمی قطرے ناقابل بیان احساس کیفیت کا باعث بن جاتے تھے جن سے بچنے کیلئے خواہش اور کوشش بھی رہی ان کو اور ان جیسوں کو اس کھیل کی ٹیم کا حصہ بنا کر مصروف کر دیا جائے۔

مختصر یہ کہ ایسے مخلص انسان کو کسی وجہ سے ناراض کرنا تو دور کی بات ہے جدائی کا سوچنا ہی محال ہے، تاہم یہ ہوگئی ہے جس کے تعلق کا حق ادا کیا جا سکتا ہے نہ یہ بساط ہے تا ہم جس کا بھی تعلق ہے اور درود پاک و کلام پاک پڑھ کر ضرور ایصال ثواب کرتا رہے، اللہ رحمان و رحیم میرے دوست کو جنت مکانی فرمائے اس کے بیٹے بیٹیوں سمیت شریک حیات اور اس جیسے پیارے اس کے خاندان کے تمام لوگوں، دوست احباب کو صبر سے سرفراز کرے۔