1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. آزاد حکومت کا نیا مطالبہ

آزاد حکومت کا نیا مطالبہ

آزاد حکومت 13 ویں ترمیم کے ساتھ تمام تر انتظامی مالیاتی اختیار کے حصول کے بعد محاذ کشمیر پر عالمی کردار کا مطالبہ کر رہی ہے جس کا مخاطب حکومت پاکستان ہے اول اختیار کردار کا کلیتاً تعلق خود انسان کی اہلیت اور کردار یعنی اپنے معیار سے ہوتا ہے جس کے لیے سچا انصاف، مساوات پسند صرف زبان سے ہی نہیں عمل کے اعتبار سے ہونا لازمی ہے جس کی موجودگی میں اعتبار و اعتماد کے تقاضوں کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے مگر تمام تر صورتحال قدم قدم پر اس کے متضاد ہو تو اختیار کردار دے بھی دیا جائے یہ خلق اور مقاصد کے لیے وبال جان ثابت ہوتا ہے ورنہ آزاد حکومت اور قانون ساز اسمبلی کو اسرائیلی اور مقبوضہ کشمیر اسمبلیوں کی طرح ممبران کی پنشن سابق صدور، وزراء اعظم کے لیے حاضر سروس وزیر کے برابر خرچہ مراعات کے انوکھے قانون کامطالبہ کیا گیا تھا نہ روکا گیا تھا ستر سال میں سرکاری ملازمتوں کے علاوہ لوگوں کو ہنر مند بنانے اور سیاحت سمیت چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیکر روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے روکا گیا نہ بلدیاتی انتخابات کراتے ہوئے سیاسی اجارہ داری ختم کرنے پر اسلام آباد نے پابندی عائد کی حتیٰ کہ جنگلات کا صفایا اور بغیر ضرورت اضلاع تحصیلیں محکمے قائم کر تے ہوئے چند خاندانوں کو سیاسی برہمن کا شریک کار کر کے گریڈ والوں کے کی اولاد کو گریڈوں پر لگانے سے روکا گیا نہ ناموں کے ساتھ لاحقہ لگانے والوں کے میرٹ پر محافظ ترازو لگانے کا ماتھے کا تلک سجانے پر اعتراض کیا گیا اگر خزانہ سرکار کے اکاؤنٹ 101 سے تنخواہوں مراعات کے حامل حقوق کے ساتھ فرائض کا حساب کیا جائے تو پھر یہ بات سچ ہو جاتی ہے دشمن بھارت آزادکشمیر پر کبھی حملے اور قبضے کی غلطی نہیں کرے گا یہاں کی عقل و فہم بغیر لکھے نافذ العمل قانون ضابطے وہاں پھیلنے لگے تو خود انڈیا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اگر اختیارات کا یہی ثمر ہے تو محاذ کشمیر پر عالمی کردار مل گیا پھر مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت کو مسجد ممبر سنبھال کر تا عمر عبادت پر بیٹھ جانا چاہیے جہاں شہداء کا مقدس لہو سب سے بڑی آواز اور طاقت ہے یہ کیسا گھن چکر ہے، سینئر وزیر بھی بھمبر این ٹی ایس بھرتیوں کے فراڈ پر سیخ پا ہوئے بغیر نہ رہ سکے، یہاں ایک ہی صاحب کے پانچ بیٹے آفیسر بھرتی ہو جاتے ہیں اکلاس کیلئے چار عشروں قبل خریدی گئی اراضی پر جھنڈے کی برکت قبضہ جما لیتی ہے، فوج کے زیر استعمال چھتر اراضی پر ان کے خاندان رہتے تھے نہ کھیل تماشہ ہوتا تھافوج اراضی خالی کر دیتی ہے مگراس پر بھی مقدس لاحقہ نظریں جمائے ہے میڈیکل کالج کی عمارت دو سال سے فنڈز ہونے کے باوجود تعمیر نہیں ہو رہی ہے کیوں کہ اس کے لیے خرید کردہ اراضی پر مفاد سرکار قابضین کو ہٹانا گناہ عظیم ہے اور ایسے ہزار قصے کہانیاں ہیں جن کا دھرانا تحریک آزادی سے غداری تشخص خاص کی توہین ہے ورنہ اسمبلی بلڈنگ کے ٹینڈر ایک ہی کمپنی کو دیتے ہوئے باقی جعلی ثابت ہونے کے انکشاف پر سیکرٹری کشمیر کونسل کی توجہ دلانا اور یہاں منتقل اختیار کا خاموش ہو جانا ہی خدمت ہے، یہاں مظفر آباد ایک تھانے دار تھا جس کی دیانت، صداقت، سخت گیری کا چرچا اتنا تھا کہ لوگ اس کے کمرے میں داخل ہوتے گھبراتے تھے اور اس کے اردگرد و ماتحت صاحبان خاص کاریگر آنے والوں کو ڈراتے تھے بہت سخت تھانیدار ہے لہٰذا جائز کام اور شکایت دھری رہتی تھی البتہ ناجائز کام کرنے والوں کو چاندی ہو گئی اور پانچ ہزار والے کام کا ریٹ پچاس ہزار ہو گیا مگر تھانیدار کے دبدبے کے باعث متاثرہ لوگ زبان نہیں کھولتے تھے کہ اس سے اس کے اعلیٰ ماتحت کی شکایت پرلینے کے دینے نہ پڑ جائیں وقت آیا تو مزہ چھکائیں گے ریڑھی تھڑے اور کمزور مجبور کو پکڑ کر اختیار کا جاہ جلال دکھایاجاتا ہے اور طاقت ور جو چاہے مرضی کرے قبضے جمائے یا اختیار کے پھل کی نیلامی کراتا رہے اس کی طرف دیکھا تو اندھے لولے لنگڑے ہو جائیں گے کیوں کہ تھانیدار کی محبت ہے پھر وزیر اُمور کشمیر علی امین خان کی آزادکشمیر میں احتساب کی بات کرے تو پٹھان دیوانہ ہوتا ہے خان کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے یہاں آپ کی جماعت سمیت تمام اپوزیشن نازک مزاج حورہے۔ جو نان ایشوز کو سیاست سمجھتی ہے، کرپشن لوٹ مار، قبضے ملازمتوں کی نیلامی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔