1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. چراغ بیگ

چراغ بیگ

ہمارے سماج کے 72سالہ استحصالی زوال کا اس سے بڑا ڈوب مرنے کا مقام کیا ہو گا تین بار وزارت عظمیٰ، دو بار وزارت اعلیٰ، قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز رہنے والا کا علاج اس اپنے ملک میں ممکن نہیں ہے، عدل کے پیمانے اس کے مقام حیثیت مطالبے پر بیرون ملک علاج کیلئے جانے دینے کے حکم میں عافیت جانتے ہیں اگر تمام تر دھن دولت مقام اسباب رکھنے والے کو یہاں کوئی سرکاری غیر سرکاری ہسپتال میں بااعتماد علاج میسر نہیں ہے تو جن کا دولت مقام اسباب سے تعلق واسطہ نہیں ہے دو اوقات کی دال روٹی سے آگے سوچ سکتے ہیں نہ ان کا امکان ہے، وہ جان لیواء مرض کا شکار ہو کر کدھر جائیں یا وہ معمولی چوری کے الزام میں جیل سڑتے ہیں یا حالات کے ہاتھوں چند سو کا جرم کر بیٹھتے ہیں ان کو ضمانت پر چھڑانے کیلئے قانونی چارہ جوئی خرچہ پھر ضمانتی کدھر سے لائیں بلکہ دِن رات غلامی کر کے اپنے لیے ناخداء بنے بڑے چھوٹے سرمایہ دار، جاگیردار ان جیسے القابات والوں کا ظلم معمولی سی غلطی پر ان کی ذاتی جیل، تہہ خانوں کے اندر جکڑے بوڑھے مرد عوت، معصوم بچہ بچی ہو تو ان کو نجات کو ن دلائے گا ہاں اللہ عارضی زندگی کے بعد ہمیشہ کی ابدی حیات میں ان کو تمام تر تکالیف مصائب کا صلہ ضرور رحمتوں نعمتوں سے دے گا، ظالم جہنم کے ایندھن میں عبرتناک انجام میں جھلسے گا تاہم یہاں ظالم اپنے قصیدے کرنے والے ہمنواؤں کا سہارا لیکر یہ دماغوں کے اندر جعلی فلسفہ پختہ کرا چکے ہیں، رزق رب دیتا ہے مگر یہ نہیں بتاتے رب دیتا ہے سب کیلئے دیتا ہے مگر تم ظالموں کی ہوس دھن دولت کے ڈھیر جوہرات، محلات کیلئے سب کا حق مار کر اژدھا بنے ان کا حق دبائے بیٹھی ہے اپنے سماج کے ایک کونے میں بڑی پارسائی کے دعویدار نظام ہیں وہ سب جن کو سرکاری ان ٹائٹل منٹ (استقاق) حاصل نہ ہے، خصوصاً غریب، سفید پوش، مزدور پیشہ طبقات کے فردمریض کی جان بچانے کیلئے خون کا عطیہ دے یا اسکا عزیز عطیہ حاصل کر سکے تو دو ہزار فیس انتقال خون سکریننگ کے نام پر کہاں سے لائے گا اسی حکمنامے کے اسباب والوں میں درد دِل ہوتا تو شاید ایسا کبھی نہ ہوتا ایسا سماج جس کا غالب طبقہ غریب مزدور پیشہ ہے جس کے خاندان کے کفیل کے پاس اپنے اہل عیال کا پیٹ بھرنے کیلئے دال روٹی کا انتظام کر لے تو نیند کیلئے آنکھیں بندکر سکتا ہے اسی فکر سے مادر پدر آزاد کیا جانیں بہر حال انسان کیلئے اس کے پیارے کو بڑی بیماری اس کے لیے عذاب بن جاتی ہے وہ اس کے لیے خون تو دے سکتا ہے مگر اس کے لیے بھی دو ہزار اس کے خون سے زیادہ بھاری ہیں یہاں تو کرپشن روکنے کے ایجنڈے پر کرپشن کے آلہ کاروں نے مصنوعی مہنگائی کا طوفان کھڑا کر کے خلق کو تختہ مشق بنا دیا ہے ایسے میں جسے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لالے پڑے ہوں وہ خون کی بوتل پر سکریننگ کے نام پر دو ہزار کتنی بار اور کیسے فراہم کرے گا یہ ایک مثال ہے، علاج کے اوزار ضرورت پر یہی حال ہے پھر چوری کرو ڈاکہ ڈالو مہربانی کرو گریڈ 18، 19، 20 کی چند آسامیاں ختم کردو، خزانے پر بوجھ کوئی ایک شعبہ محکمہ دوسرے میں ضم کرو مگر یہ ہو ظلم نہ کرو کم از کم غریبہ کو اتنا حق تو دو کہ اس کا پیارا زندہ رہے نہ رہے مگر اس کو یہ افسوس نہ رہے کہ وہ فیس کے نام پر خون نہ دے سکا، یہاں کوئی چراغ بیگ آئے، صرف تعلیم صحت کے شعبے پرائیویٹ سیکٹر میں دیکر تمام عوام کے علاج کا ہر طرح کا خرچہ انکو مریض کے علاج پر دیتا رہے تو دونوں محکموں کا آدھا بجٹ بچ جائے گا مگر اس یونیفارم یا بغیر یونیفارم والے سرکار کے مزے لوٹنے والے کو ننگا کر کے گٹر میں روندھے مند لٹکا کر سنسار کرے جو کہتا ہے کہ جو تین لاکھ کا علاج کراتا ہے وہ یہ پیسہ کہاں سے لاتا ہے درندے وحشی وہ اپنا گھر بار سب کچھ بیچ کر اپنا پیارا بچاتا ہے جسے اپنے پیارے سے پیار ہو وہ ہی ملک و ملت کا وفادار ہوتا ہے۔ وطن پر قربان ہونے والے کسی بھی ادارے شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں لیکن ان کی بنیاد ان ہی مزدور پیشہ طبقات سے ہے۔