1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. CNI کا زکوٰۃ کے غیر شرعی استعمال پر نوٹس

CNI کا زکوٰۃ کے غیر شرعی استعمال پر نوٹس

اللہ سب سے بڑا رحمن و رحیم ہے، رحمن رحیم ہونے پر بندہ قربان جائے اپنے محبوب رحمت اللعالمین کی اُمت پر فضل کرم کے لیے بہانے دے دیئے یہ کرو تو فضل کرم لے کر فیضیاب ہو جاؤ، اسلام امن فلاح کا دین ہے جس کا پیغام روح و جسم کی طرح عمل سے منسلک ہے بلکہ عمل کر کے تعلیم کا فروغ ہے، کردار کا مطلب ومعنی عمل ہے، اچھا کام کر و جسے دیکھ کر دوسرے بھی اچھے کام کریں، ایک انسان کا دوسرے انسان کے کام آنا افضل ترین عمل ہے، ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا اعزازات سعادتوں کے بلند ترین مقام سے فیضیاب ہونے کا راستہ ہے، رب العزت بے نیاز ہے مگر مدد کرنے والا دوسرے کی جو مدد کرتا ہے اسے رب اپنے ذمے قرضہ قرار دیتا ہے یعنی خود قرض دار بن جاتا ہے دوسرے انسان کے کام کرنے والے انسان کا جس کا بدلہ بھی اپنی شانوں کے مطابق عطاء فرماتا ہے یہ شک و شبہ سے بالاتر امر ہے کہ یہ بدلہ روز جزا ضرور کام آئے گا، ناصرف یہ بلکہ رب العزت نے مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے کام آنے کا نظام دین کے بنیادی ارکان میں شامل کر کے فضل فرمایا کہ کوئی صاحب استطاعت اس کار خیر سے محروم نہ رہ جائے اس مقصد کے لیے آزادکشمیر میں محکمہ زکوٰۃ و عشر قائم ہے، مگر ماضی میں زکوٰۃ فنڈ اس کے بنکوں سے ملنے والے منافع کیلئے استعمال کے حوالے سے حقیقی مقاصد کے بجائے دیگر عوامل پر لگانے کے کلچر نے الٹا گنگا بہائے رکھی اس پر ستم ظریفی یہ کہ محکمہ زکوٰۃ و کونسل کمیٹیوں سمیت انتظام انصرام سے جڑے مستقل یا عارضی بشمول صوابدیدی پوسٹوں پر تعینات لوگوں کو تنخواہیں مراعات زکوٰۃ فنڈز سے ہی ادا کی جا رہی ہیں، زکوٰۃ کی تعریف میں نہ اُترنے والے لوگوں کو بھی زکوٰۃ کا عادی بنا دیا گیا حتیٰ کہ حکومتوں کے اداروں سے لیکر افراد تک کے اعلانات پر زکوٰۃ چیک سے عمل درآمد ہوتا رہا ہے بلکہ ظلم ہو تارہا، حق دار کا حق ناحق ادا کر کے سب کو اُلٹ پُلٹ کر دیا گیا ہے ایسے میں کتنے ہی محکمے بغیر کارکردگی کے خزانہ سرکار سے بجٹ لے رہے ہیں تو پھر زکوٰۃ کے انتظام کو یہ بجٹ دینے میں کیا امر رکاوٹ ہے جبکہ بنکوں کے اکاؤنٹ ہولڈرز کے اکاؤنٹ سے خودبخود بنک سالانہ زکوٰۃ کٹوتی کرا کر زکوٰۃ اکاؤنٹ میں رقم داخل کر دیتے ہیں تو پھر حکومت اداروں کونسل کمیٹیوں کا کیا کام ہے اس نازک مسئلہ کی جانب پہلی بار اسلامی نظریاتی کونسل نے توجہ دی ہے، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل چیف جسٹس آزادکشمیر جسٹس ابراہیم ضیاء نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاسوں میں بڑی محنت اور ریاضت کے بعد تعلیمات اسلامی کی روح کے مطابق زکوٰۃ کے درست انتظام و انصرام استعمال کے حوالے سے سفارشات بنا کر قانون ساز اسمبلی کو ارسال کر دی ہیں جن کے مطابق زکوٰۃ سے جمع شدہ رقم سے انتظامی اخراجات کو غیر شرعی قرار دیا گیا ہے، شفاف الفاظ میں تاکید کی گئی ہے زکوٰۃ کے نظام کو قرآن و سنت کی روح کے مطابق قابل عمل بنانا حکومت اداروں کا فرض اولین ہے، جس کا پابند مذہب و آئین کرتا ہے جس کے مطابق سفارشات پر عملدرآمد کیلئے قانون ساز اسمبلی قانونی ترامیم عمل میں لائے جن میں ہر صاحب نصاب کو ایک ڈیکلریشن فارم کا اجراء کیا جائے وہ سالانہ قابل زکوٰۃ اموال و جائیداد قابل عشر پیداوار ظاہر کرے جس کے مطابق زکوٰۃ و عشر ادا کرے، زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو اس کا 25 فیصد اپنی مرضی 25 فیصد زکوٰۃ کمیٹیوں کے ذریعے ادا کرے جس کا پچاس فیصد اجتماعی فلاحی مقاصد کے لیے بروئے کار لایا جائے، زکوٰۃ کونسل کمیٹیوں سمیت تمام انتظام غیر سیاسی ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر علاقے میں متقی پرہیز گار معیار پر تشکیل دیا جائے، زکوٰۃ صرف زکوٰۃ کے حق دار کی اسلامی تعریف کے مطابق ادا کی جائے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ایک بہت بڑے جرم ظلم سے نجات دلانے اور سیدھا راستہ دکھانے کی آئینہ دار ہیں، یہ صرف بنک میں اکاؤنٹ ہولڈرز ہی نہیں بلکہ بغیر بنک اکاؤنٹ صاحب استطاعت کے مال پر بھی وصول کرنے کیلئے اعتماد بحالی کیلئے ناگزیر ہے، بلکہ اس کا ایک حصہ حق دار مستحق، بے روزگاروں کو مستقل اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے ہنر مندی کے عملی ماحول میں ہنر مند بنانے کی طر ف مرکوز کیا جائے تو ٹیوٹا یاکسی محکمہ صرف سنداور حاضری رجسٹر والے ماحول سے یہ ممکن نہ ہے اس کے لیے ہنر مند مراکز کے پرائیویٹ شعبہ جات کو شامل کیا جائے کیوں کہ عمل کے بغیر محض تعلیم بے اثر ہوتی ہے۔