1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. کرونا، قومی تربیت کی ضرورت

کرونا، قومی تربیت کی ضرورت

اللہ کے فضل و کرم سے ملک میں کرونا کے باعث دنیا بھر کے حالات کی نسبت حالات زیادہ خراب نہیں ہوئے ہیں باوجود اس کے اجتماعی سماجی ماحول عادات کے غیر مناسب رویے، عادات سب سے زیادہ خطرناک بن سکتے تھے اب بھی یہی عوامل بڑے خطرے کا اسباب بن سکتے ہیں تاہم حکومتوں، اداروں سمیت منسلک شعبہ جات کے کردار بشمول خود عوام کی طرف سے سخت مگر ناگزیر اقدامات پر عملدرآمد کرانے اور کرنے کے مثبت اثرات کا غلبہ رہا ہے، جاری احتیاطی لائحہ عمل کو تسلسل سے قائم رکھتے ہوئے خطرات کے پھیلاؤ کو روکنا لازمی ہے مگر ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کا غرب ہونا مزید آدھی کا سفید پوش صورت کا وجود معاشی آسانیوں پر مجبور کر رہا ہے۔ غریب خصوصاً سفید پوش طبقات کو اپنی اشیاء خوردونوش، علاج معالجہ، بجلی، گیس سمیت زندگی برقرار رکھنے کے لازمی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے حل نکالا جائے مگر یہ بہت بڑا رسک ہونے کے باوجود اس طرح ممکن ہے کہ تمام لوگ جس طرح سانس، پانی، غذا، زندگی کیلئے لازمی ہے اس طرح احتیاطی تدابیر کو اپنے لیے سانس، پانی، غذا بنا لیں کیوں کہ عالمی قومی ماہرین کے مطابق کرونا سے پیدا خطرات کو ختم ہونے میں کم از کم ایک سال کا عرصہ ضرور درپیش رہے گا جسے سامنے رکھتے ہوئے حل کی تدابیر کی جانب پیش قدمی کرنی ہوگی کام کرنے والوں کے ساتھ کام لینے والے تربیتی کورس کرائیں اور کریں جس طرح فوجی کیلئے فوجی تربیت لازمی ہے اسی طرح ملک کے ہر شہری کیلئے کرونا بچاؤ کی تدابیر پر عمل کرنے اور کرانے کی تربیت ناگزیر بن جائے۔

یہ ایک دِن یا ایک گھنٹہ کا زیادہ سے زیادہ تربیتی سلسلہ جو بڑے سے بڑے ادارے سے لیکر دو دو چار چار افراد پر مشتمل کام کاج کے شعبہ جات کیلئے عملدرآمد خود بہ حیثیت قوم سب کو کرنا ہو گا اور جو کام لیتے ہیں وہ دکان کا کاروباری تاجر ہو یا سکول کے ایک پیریڈ کی ِٹیچر ہو وہ عملدرآمد کرے اور کرائے تو لاک ڈاؤن میں نرمی کے ساتھ آسانیوں کی طرف بڑھنا ممکن ہو سکے گا۔ خاص کر جو بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کرے اس کے ساتھ سماجی ناراضی کا اظہار کیا جائے مگر اس سے بھی بڑھ کر زیادہ بڑی ضرورت یہ ہے کہ قومی سطح پر ضرورت سے صرف کم ہی نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ خوف کے عذاب سے بھی نجات کا ماحول سازگار کیا جائے، یعنی احتیاطی تدابیر اور رویوں، اظہار رائے، زیادتی جیسے آسان لفظوں میں کہا جائے، ضرورت سے زرہ بھر زیادہ احتیاط کے نام پر خوف کو خود پر سوار کرنا اور دوسروں پر مسلط کرنا ماسوائے پاگل پن کے کچھ نتیجہ نہیں دے گا۔ جس کا شکار ہو کر ایک دوسرے کے متعلقہ فرائض حقوق سے راہ فرار اختیار کر لینا بزدلی ہے۔ اور یہ بزدلی رویہ فائدہ کے بجائے نقصان کا لازمی سیلاب ثابت ہو تا ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ اس وقت بھی زیادہ شور اور ڈھول وہ بجا رہے ہیں جو مالیتی طورپر مستحکم ہیں۔ سالہا سال آرام سے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ متوسط طبقات بھی ضرورت سے زیادہ اخراجات روک کر خوش رہ سکتے ہیں اصل مسئلہ غریب خاص کر کے وہ سفید پوش افراد ہیں جو ہاتھ پھیلانے سے گریزاں رہتے ہیں اللہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے جو بھوک، تنگی برداشت کرتے ہیں مگر سر نہیں جھکاتے ہیں۔