1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. درس کربلا کے امین

درس کربلا کے امین

مقبوضہ جموں کشمیر میں کرفیوکو سوا چار ماہ ہو چکے ہیں یہ انسانی تاریخ کا طویل ترین پابندیوں کا سلسلہ ہے جس میں انسانوں کو تمام تر بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے تاکہ یہ سب قہر و غضب کے سامنے سمجھوتہ کر لیں لیکن تاریخ کے اس طویل کرفیو اور پابندیوں کے عذاب کے سامنے کشمیری عوام کا حوصلہ استقامت، ناقابل بیان، بلندیوں کی داستانیں رقم کر رہا ہے، ان کی ساری قیادت جیلوں کے عقوبت خانوں میں پابند سلاسل ہے جن کے ساتھ ہزاروں نوجوان مرد خواتین بھی اذیت خانوں میں بربریت کا سامنا کر رہے ہیں، حتیٰ کہ بچوں کو بھی گرفتار کر کے تھانوں میں اُلٹا لٹکا کر ظلم کا نشانہ بنایا جا تا ہے، ان کی تلاش میں نکلنے والے ماں باپ کو فوجی کیڑے مکوڑوں کی طرح گھسیٹتے ہوئے تشدد کے ساتھ تذلیل کے تماشے معمول بنا چکے ہیں مگر بھول گئے ہیں 1932 سے اب تک لاکھوں کشمیری مسلمان شہادتوں کا خراج پیش کرتے ہوئے ظلم و ستم کے پہاڑوں کو شکست دیتے ہوئے ناقابل تسخیر قوم بن چکے ہیں جو اپنے شہداء کے مقدس لہو کا حرمت والا علم بلند رکھیں گے مگر اپنے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے یہ وہ عہد عزم کی قوت ہے جس کے باعث بھارت اپنی دس لاکھ افواج اور 2لاکھ سے زائد دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے ہندو جنونی لا کر آگ خون کا دریا بہانے کے باوجود ناکامی سے دوچار ہے وہ کرفیو کا حل ڈھونڈ رہا ہے لیکن خوف زدہ ہے کہ کرفیو ہٹانے کے بعد جموں سے وادی تک انسانوں کا سمندر اس کا سارا ہیبت فوجی قوت سے قائم دبدبے کا بھانڈا پھوڑ دے گا کیوں کہ کشمیریوں نے کربلا والوں کے سچے پیروکار ہونے کا ایسا ہمت و حوصلوں کا کمال قربانیوں سے لبریز خراج جاری رکھا ہوا ہے کہ جان مال سب کچھ چلا جائے گھر بار لٹ جائے ماں باپ، بہن بھائی، بیٹا بیٹی ذبح ہو جائیں شہید کے لہو سے منور علم آزادی سربلند رکھیں گے یہی وہ سبق ہے جس کا مطالعہ اور اس پر عمل کرنے کی آزادکشمیر پاکستان اور بیرون ممالک کشمیریوں کو ضرورت ہے۔

یہ درس کربلا کا ہے خوف بس خد اکا ہے

آپ سب بھی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام کی آواز بن کر یکجہتی کے ساتھ پرامن جہد مسلسل کے لائحہ عمل کی تصویر بن جائیں یہاں شک و شبہات طرح طرح کی زبانوں اور نعروں تنقید طنز ابہامات، مایوسیاں پھیلا کر ریچھ والی دوستی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ نہ کریں اگر ایسا کرنا ہے تو پھر بہتر یہ ہے کہ آپ خاموش رہیں اور اپنے فتور بھرے خیالات بزدلانہ عادات مایوسی کے وائرس زدہ رویوں کو آگ لگا کر کم از کم زبان بندی کر لیں یہی آپ کی تحریک ساتھ بہت بڑی نیکی ہو گی یہ طے ہے کہ کشمیر الگ ریاست بنے الحاق پاکستان ہو یا رائے شماری کا نتیجہ حقیقت حال کا عکاس بنے جس کی بنیادیں زبانوں، تہذیب، ثقافت رویوں سمیت مختلف ماحولیاتی اثرات سے بہت گہری اور مضبوط ہیں بالآخر ہر حل کا نتیجہ بغیر کام عیاشیوں، شان شوکت کا خاتمہ ہو گا گو کہ بین الاقوامی علاقائی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر رائے عامہ کی اپنی اہمیت ہے مگر فیصلہ کن کردار حکومتوں پالیسی سازوں کا ہوتا ہے جو اپنے اپنے ملک اور معیشت سمیت جملہ مفادات کو بالادستی دیتے ہیں ان کو غرض نہیں کہاں خون کے دریا بہہ چکے ہیں سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے پھر مقبوضہ کشمیر کے عوام نصف صدی خصوصاً چار عشروں سے مسلسل شہادتوں ظلم و جبر کے پہاڑوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اعصابی سیاسی معاشی خاندانی، سماجی ہر لحاظ سے ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں مگر سیسہ پلائی دیوار بنے ہیں ان کو بطور حکمت عملی مناسبت آرام کی ضرورت ہے جس کے لیے آزادکشمیر پاکستان بیرون ملک کشمیریوں کو ایک ہی نعرہ رائے شماری کو لیکر بین الاقوامی توجہ مسلسل مقبوضہ کشمیر پر مرکوز کرنے کیلئے جہد مسلسل کا کردار نبھانا ہو گا یہ ذہن نشین رکھنا ہو گا کشمیر کا حل مقبوضہ کشمیر کی قیادت عوام کو شامل کیے بغیر ممکن نہ ہے؟