1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. فلسطین فارمولا

فلسطین فارمولا

امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے اپنا پلان پیش کیا جس کے تحت بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے، اسرائیل کی تسلیم کردہ غیر قانونی کالونیوں اور آبادکاری کو مان لیا جائے، فلسطینی اسرائیلی وجود کو بطور یہودی ریاست مانتے ہوئے اپنے اُصولی موقف سے دستبردار ہو جائیں، نیز اسرائیلی بستیوں کے قیام کا مزید سلسلہ چار سال روک دیا جائے گا، جبکہ شہر بیت المقدس کے ایک علاقے میں فلسطینی دارالحکومت قائم کرنے کا فلسطینیوں کو حق ملے گا، فلسطینی اتھارٹی اور مزاحمتی تحریک حماس نے یہ پلان مسترد کر دیا ہے جس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں میں امریکی پرچم اور صدر ٹرمپ کی تصاویر نذر آتش کیے جا رہے ہیں۔

وزارت خارجہ پاکستان نے اس معاملے پر اپنے ردعمل میں وہاں دو ریاستوں کا قیام 1967 سے پہلے والی باڈر پوزیشن تسلیم کرتے ہوئے لایا جائے یہ پوزیشن 1993 میں امریکہ کے پیش کردہ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینیوں نے تسلیم کی تھی جس پر اسرائیل نے عمل کیا نہ امریکہ نے عملدرآمد کرایا جس کے 27 سال بعد اس سے بھی بدتر فارمولا پیش کر کے امریکہ نے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ظلم جبر، ناانصافی، غاصبانہ قبضے کو بالادستی دینے کی اپنی سوچ کو کھل کر بیان کر دیا ہے، جو اقوام متحدہ کی فلسطین پر قراردادوں سمیت انصاف، قانون، انسانی حقوق، اخلاقیات کو تہس نہس کرتے ہوئے طاقت ور کو کمزور کو دبا لینے کی تائید و حمایت دینے کا لائسنس ہے۔ فلسطینیوں کی تحریک کو 72 سال ہو گئے ہیں یہ 27 سال ٹینکوں، توپوں، گولیوں کا ہر روز صرف پتھروں سے مقابلہ کرتے ہوئے لاش نہیں لاشیں اُٹھاتے اور اجتماعی قبروں میں دفناتے پھر سینہ تان کر اپنے حق کیلئے مزاحمت کی عظیم تر تاریخ سے سرخ ہیں۔

اسرائیلی فوج کے مقابلے میں آگے بڑھ کر انکی حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے، اپنے عزم، حوصلے، استقامت، قربانیوں کے خراج سے تحریک کو منظم رکھنے والے فلسطینی عوام سب مظلوم آوازوں کیلئے مشعل راہ ہیں، امریکن صدر کے فلسطین فارمولے کے بعد ان کی کشمیر ایشو کے حل کیلئے آفرز کے ارادوں کے بارے میں شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ نتیجہ کیا ہو سکتا ہے اسی تناظر میں آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی نے اس فارمولے کیخلاف فلسطینیوں کے حق میں قرارداد پاس کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، کشمیر اور فلسطین پر ناجائز قابضین گہرے یار اور ان کا دوست امریکہ ہے تاہم اس اندھیر نگری اور آفرز میں یہ مثبت حقیقت بالادست حیثیت رکھی ہے۔ ان تنازعات کا وجود تسلیم ہوتا ہے جو قابضین کے جھوٹے موقف، پروپیگنڈہ کا پردہ چاک کرتے ہیں یہ تنازعات حل کرنا لازمی ہیں جس کے لیے ان کے بنیادی فریق کے موقف، حق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی دنیا کے معیار، طاقت، معیشت اور مسلم دشمنی کے باوجود اظہار کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ اپنے تنازعے کے حل میں خود مسئلہ بننے کا جواز اُبھرنے نہ حمایت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو بلکہ قیاس آرائیوں اختراعی خیالات کے بجائے اپنے اُصولی موقف کا اظہار طاقت نظر آئے تو عقیدت محبت کا بندھن بھی مضبوط سے مضبوط ہوتا رہے۔

امریکہ میں آزادکشمیر کے ایک سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی قریبی عزیزہ عیشائی صاحبہ کے متعلق سوشل میڈیا پر تنقید کا تحریک سے کیا تعلق ہے قابل مذمت ہے یا تو خود پنڈی لاہور دوکانیں اور یہاں ملازمتیں چھوڑ کر تحریک کو جانی مالی وقت دیں یا پھر دوسروں کو کام کریں دیں، صرف اور صرف برائے نام امداد پر قائم فلسطینی اتھارٹی کی معیشت تباہ حال ہے مگر اس کے باوجود اس کی طرف سے پاکستانی عوام کیلئے ایک موبائل ہیلتھ یونٹ کا تحفہ بھجوانا ان کے عشق ومحبت پاکستان سے لازوال اظہار ہے، جس کا دوطرفہ نظارہ ساری دنیا کو دکھانے کیلئے پاکستان آزادکشمیر کے عوام کو گھروں سے پانچ فروری کو باہر نکلنا چاہتے کہ ہمارا جینا مرنا ایک ساتھ ہے۔ جس کا عملی اظہار مقبوضہ کشمیر میں شہداء کے جنازوں میں آئے روز ملتا ہے۔