1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. آزاد کشمیرکے سیاستدانوں کی نااہلی اور پیپلزپارٹی کی چارج شیٹ

آزاد کشمیرکے سیاستدانوں کی نااہلی اور پیپلزپارٹی کی چارج شیٹ

وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں 43 سال گزر جانے کے باوجود ایک بھی ترمیم نہ ہونے کو یہاں کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی نااہلی قرار دیا ہے جس میں موجودہ حکومت شامل نہیں ہے۔ باقی ان سے پہلے والے سب سیاستدان یعنی حکمران رہنے والوں کی نا اہلی کہنے سے مراد نا اہل قرار دینا ہی ہے۔ یہ نااہل کا طعنہ بڑی شہرت اختیار کر چکا ہے مگر جس پیرائے میں برجیس طاہر نے نا اہلی کے لفظ کو استعمال کیا ہے وہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی مصداق ہے۔ برجیس طاہر کا آزاد کشمیر عدالت العالیہ کے ججز کی کمی کو دور کرنے کی امید دلاتے ہوئے کہنا ہے آزاد کشمیر گلگت بلتستان میں آئینی ترامیم کیلئے نئی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ برجیس طاہر نثار میمن کے بعد دوسرے وزیر امور کشمیر ہیں جن کے حوالے سے کوئی سنگین الزامات یا تھانے دار سٹائل کا الزام نہیں لگا ہے۔ معمول کا شغل میلا چلتا ہے مگر انکو اپنے قائد نواز شریف کے وعدے پورے کرنے کیلئے خصوصی توجہ دینا ہوگی انکے پاس پاکستان کے آمدہ انتخابات کے تناظر میں وقت بہت کم ہے۔ ان سمیت انکے ساتھی وزراء اور خود انکے قائد نواز شریف ایک سال سے اپنے سیاسی مخالفین کو آزاد کشمیر گلگت بلتستان میں ن لیگ کی کامیابی اور ہیوی ویٹ مینڈیٹ کے طعنے دیتے ہوئے فخریہ انداز میں خصوصی زکر کرنا تو نہیں بھولتے مگر آئینی ترامیم سے لیکر ترقیاتی میگا پراجیکٹس تک ایک حرف بھی کاغذ پر آیا ہے نا کسی پراجیکٹ کی ایک اینٹ رکھی جا سکی ہے بلکہ لوڈ شیڈنگ کا بحران مچا ہوا ہے انکے قائد لوگوں سے پوچھتے ہیں انکا قصور کیا ہے اور آزاد کشمیر کو لو گ یہ پوچھنے میں حق باجانب ہیں انکو لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلط کرکے کس بات کی سزا دی جارہی ہے لہذا امور کشمیر گلگت بلتستان کے وزیر برجیس طاہر کو ایک مقررہ وقت بھی دینا چاہے اتنے عرصے میں آئینی ترامیم توانائی منصوبہ جات کے معاہدات دیگر ایشوز کا ہمیشہ کیلئے حل کر دیا جائے گا۔ ورنہ یہاں پی پی پی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے آزاد حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے حوالے سے جو چارج شیٹ جاری کی ہے وہ اینٹ کا جواب پتھر بن کر سارے خوابوں کو چکنا چور کرنے کے مترادف ہے یہاں ن لیگ نے عام انتخابات کے موقع پر جو اعلانات دعوے اور سب کچھ بدل دینے کے خواب دکھائے تھے وہ صدر ریاست کی ملاقاتوں کی تصاویر اور لفاظی کے گھورکھ دھندے سے بھرپور ایک ہی پریس ریلیز کو بار بار بدل کر شائع کروانے سے پورے ہوں گے اور نہ ہی مخالفین کے خلاف پشتو فلموں والے مار دھاڑ سے بھرپور بیانات کے گولے داغنے سے کام چلے گا۔ بلکہ اب کچھ کرکے دکھانا بھی ہوگا ورنہ گرما گرمی ہی والی بات آگے بڑھی تو نہ جانے کس موڑ اور کس حادثے کی موجب بن جائے اور پھر ہاتھ ملتے رہ جانے کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچے گا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے یہاں آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کا معمول کا اجلاس عید قربان سے چار دن پہلے طلب کیا گیا ہے جس میں حریت کانفرنس سے مشاورت کے مطابق امریکہ کی طرف سے حزب المجاہدین پر پابندی کی مذمت سمیت کشمیر کی حالیہ صورتحال پر قراردادیں پیش ہو ں گی دیگر ایشوز پر اپوزیشن کی تحریک التواءتوجہ دلاؤ نوٹس قراردادیں بھی شامل ہیں کیا عید قربان سے صرف چار دن پہلے ایسا ماحول ہوگا سب ممبران شریک ہوں اور شریک ہوں تو وہ پوری یکسوئی سے کاروائی میں حصہ لے سکیں یہاں بدقسمتی سے تعطیلات کے ایام سے پہلے ہی سرگرمیاں ماند ہو جاتی ہیں۔ ایسے ماحول میں اجلاس عید قربان کے بعد بھی ہو سکتا تھا پہلے اجلاس کرنے کا کیا مطلب نکلتا ہے کیا سات دن پہلے سات دن بعد کے ٹی اے ڈی اے ہی مقصد ہے یا پھر کوئی اور مصلحت مجبوری یا خوف ہے جس کے ہاتھوں میاں نواز شریف قربان ہو گئے جنہوں نے قانون ساز اسمبلی کی نئی تعمیر کیلئے فوری فنڈز دینے کا اعلان کیا تھا مگر اس پر بھی عمل نہیں ہو سکا ہے تو باقی سب اعلانات پر عملدرآمد کیسے ہوگا؟ 23 اگست یوم نیلہ بٹ کی مناسبت سے شائع ہونے والے کالم میں 1991 کے بجائے 1996ء لکھا گیا جس کی سابق سیکرٹری حکومت سرداررحیم خان نے اصلاح فرمائی ہے۔ جن کامیں شکرگزارہوں۔