معروف قلمکار، سیاست دان اور نفیس و شائستہ انسان عرفان صدیقی وہیں پہنچ گئے، جہاں ہمیں بھی پہنچنا ہے، جہاں انصاف ہوتا ہے اور جہاں ہر ایک سوائے رحم ربی کے کسی طرح بار نہیں پا سکتا۔ اللہ ان پر اور ہم سب پر رحم فرمائے۔ بنیادی طور پر وہ ایک استاد، ایک قلمکار اور ایک سیاست دان تھے۔ ایسے صاحب ہنر شخص تھے کہ قلم ان کے ہاتھوں میں پانی ہو جاتا تھا اور وہ اس سے اپنے موقف کیلئے گلاب کی خوشبو پیدا کر لینے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کے کالم میں دلیل و جذبات اور شائستگی و احساسات کا ایسا نثری امتزاج ملتا تھا جو دل کو وارفتہ اور دماغ کو از خود رفتہ کر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
افغانستان پر امریکی حملہ کے ردعمل میں انھوں نے قلم کو تیغ بنایا تو عام عوام کے دلوں میں گھر کرتے گئے۔ اس حوالے سے انھوں نے جو لکھا، عوام کے دل کا ترجمان ہوتا گیا، اس موقع پر انھوں نے حسن نثار جیسے دوسرے موقف کے حامیوں کا قلم کی کاٹ سے مقابلہ کیا اور دلیل و شائستگی سے ڈٹ کے اس محاذ پر کھڑے رہے۔ وہ رائٹ ونگ کے نظریاتی آدمی تھے، حب رسول سے سرشار اور ذہنی طور پر مزاحمت شعار۔ مدینہ حاضری کے حوالے سے ان کے کالموں کی الگ سے کتاب چھپ چکی ہے، لفظوں کو سسکنا اور جذبات میں بھگونا ان کا خاص وصف تھا، وہ اپنے کالم میں صحافت اور ادب کا اچھوتا اسلوب تخلیق کرتے تھے۔
وہ اردو صحافت میں چوٹی کے ان چند صاحب طرز کالم نگاروں میں تھے، جن کے لکھے پر لوگ اشک بہاتے اور رشک کیا کرتے تھے، ان کے کالم رائے سازی اور جمہوریت و ن لیگ کے لیے ذہن سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے، ن لیگ کی حمایت ہو، جمہوریت کی بازگشت ہو، دائیں بازو کا کوئی موقف ہو یا جنرلز کے سیاسی عزائم کے خلاف کوئی مسئلہ ہو، وہ کھل کے مورچہ اور محاذ سنبھالنے والوں میں سے تھے۔
سیاست میں انھوں نے ن لیگ کا کھل کے اور ڈٹ کے ساتھ دیا، اس حوالے سے کبھی غیر جانبداری کا دعویٰ یا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ صاف طور پر جمہوریت اور ن لیگ کی سیاست کے علمبردار تھے، اصطلاحات تخلیق کرنے میں بڑے ہنر ور اور ثروت مند تھے۔ نواز شریف کے قریبی اور بااعتماد ساتھی تھے اور اسی وابستگی کی بنا پر بالآخر سینیٹر بن گئے تھے، لکھنا اور بولنا اور پھر حتی الامکان دلیل و شائستگی سے کام لینا ان کا وتیرہ تھا، سیاست کے نشیب و فراز کے راز داں اور ن لیگی سیاست کے راز ہائے درون خانہ کے چشم دید گواہ تھے۔
جب تک ن لیگ جنرلز کی اپوزیشن رہی، ان کے لکھے پر قوم اش اش کرتی رہی، پھر تحریک انصاف کے سیاست وارد ہونے کے بعد انھوں نے ن لیگ کی حمایت میں جو لکھا، ظاہر ہے، وہ تحریک انصاف کے حامیوں کو پسند نہیں آیا، بالکل ویسے ہی، جیسے تحریک انصاف کے حامی لکھاریوں کا لکھا، ن لیگ کے حامیوں کو پسند نہیں آیا یا آ سکتا۔ اپنی رائے رکھنے اور کھل کے اس کا ساتھ دینے کی بہرحال وہ ایک واضح مثال تھے۔ اب وہ اللہ کے پاس پہنچ گئے، جہاں ہمیں بھی پہنچنا ہے اور اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے، کون کتنا صاحب تقوی ہے؟ اور کون کتنے رحم کا مستحق؟
عندالوفات مخالف نکتہ نظر کے حاملین کیلئے بھی تحمل اور شائستگی شعار کرنا اچھے انسانوں اور وسیع الظرف مسلمانوں کی تربیت اور روایت کا حصہ ہے۔ ہم کسی کے جج نہیں اور محض سیاست اور نقطہ نظر کے اختلاف سے میت کیلیے برے الفاظ برتنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں، مخالفین کی زندگی بھر ہم مخالفت کرتے ہیں اور آئندہ بھی زندگی بھر مخالفت کی جا سکتی ہے، مگر میت پر حرف ضبط اور حرف تسلی ہی اہل ظرف کا شیوہ ہے، سو ان کے سیاسی مخالفین کو بھی اس لمحے اسی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے جس تحمل اور رواداری کا مظاہرہ وہ اپنے محبین کے لئے اپنے مخالفین سے رکھتے ہوں، یہ وقت سب پر آنا ہے اور انسانوں پر اس سے کڑا وقت کوئی نہیں ہوتا۔
کسی کو اچھا لگے یا برا بہرحال ہم ان کیلئے اور اپنے لیے اللہ کے رحم کو آواز دیتے ہیں کہ گنہگاروں پر اس سے زیادہ کوئی رحیم نہیں ہو سکتا۔ اس موقع پر حسب روایت و تعلیم ہم ان کے اہل قلم، اہل سیاست اور دوسرے وابستگان و لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔