1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. رؤف کلاسرا کا قصور کیا؟

رؤف کلاسرا کا قصور کیا؟

مکرم رؤف کلاسرا ہوں، برادرم سلیم صافی ہوںیاہم تم۔ سب پر نافذ العمل اپنے عمل کی ایک قیمت یا یوں کہئے ایک زکوۃ ہوتی ہے، آدمی کوجو بہرحال چکا نی پڑتی ہے۔ امتحان بھی آتے ہیں اور الزام بھی لگتے ہیں۔ کوئی آزاد آدمی کبھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا، یہی تاریخ ہے۔ یہاں تک کہ اولیااور انبیاء بھی الزام و دشنام سے بچائے نہیں گئے، غالب کی زبان میں ؎

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے

ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟

معاملات میں دیر ہو سکتی ہے، اندھیر البتہ قدرت کے کارخانے میں نہیں ہوتا۔ اظہار کی آزادی سے بڑی نعمت کوئی نہیں ہوتی، البتہ جب تک کہ یہ اظہارِ آزار کی آزادی نہ بن جائے۔ ہر محترم آزادی کی بھی مگر ایک قیمت ہوتی ہے، آزاد بندوں کو جو دینا اورسہنا پڑتی ہے۔ دنیا دارالعمل کہلاتی ہے تواس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہاںجو فصل بوئی جاتی ہے، وہ یہاں کاٹی نہیں جاتی۔ کم ظرف مگراتنا انتظار نہیں کھینچ سکتے۔ اور کھینچیں بھی کیوں کہ جب ان کے کرتوت خود ان پر خوب عیاں ہوں؟ دوسروں کو آدمی دھوکا دے سکتاہے خود کو مگر کبھی نہیں! چنانچہ کینہ پرور حسد کرتا اور سازشوں کے طوفان اٹھاتاہے۔ کم ظرفی کی بوئی یہ فصل مگرایسی عاجلانہ اور عاقبت نا اندیشانہ ہوتی ہے کہ جس کے ردِ عمل کی شدید آندھی خود اسی کے سب سازشی درخت اکھاڑ اور اسی کی بے چہرہ کھیتی اجاڑ کے رکھ دیتی ہے۔ زندگی کی چکا چوند سے مرعوب لوگ کہاں یاد رکھ سکتے ہیں۔ یہ بات البتہ بہت یاد رکھنے کی ہے کہ زندگی سب کھرا اور کھوٹا الگ کر کے چھوڑتی ہے، اور یہ بھی کہ مخلصوں اور بہادروں کوزندگی کبھی فراموش نہیں کیا کرتی !سچوں اور مظلوموں کویہ کبھی بے آسرا نہیں رہنے دیتی۔

رؤف کلاسرا اپنے ہی ڈھب کا ایک آدمی ہے۔ اپنی دنیامیں جینے والا اور اس دنیا کی خاطر کسی کو خاطر میں نہ لانے والا۔ بنیادی طور پر وہ ایک تحقیقی خبرنگارہے پھر مگر کالم اور الیکٹرونک میڈیا میں بھی اس نے اپنے لئے جگہ پیدا کر دکھائی۔ اس کے اندازِ فکر، اس کے طریقِ استدلال اور اس کے نظریاتی و سیاسی خیالات سے اختلاف ثواب ہو سکتاہے، یہ بھی مگرمانناپڑے گا کہ اپنی خبر اوراپنی تحقیق کی راہ میں آنے والوں کی وہ کم ہی پروا کرتاہے۔ جیسا کہ اپنے پیشے، آدمیت اور اپنی نجابت سے آشنا لوگوں کا شیوہ اور شعار ہوتاہے، یا ہونا چاہئے۔

رکیک فطرت اب ایسوں پر حملے نہ کریں توکیا پھولوں کے ہار پہنائیں؟ پھر ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں جھوٹ کا راج ہے اور منافقت جہاں سکہ رائج الوقت رواج۔ حال یہ ہے کہ فرسودگی اور کرپشن کے خلاف تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کو بھی تبدیلی کے نعرے کی تکمیل اس کے سوا نظر نہیں آتی کہ وہ اپنی صفوں میں کچھ جید فرسودہ اورچند نامور کرپٹ ووٹ رکھنے والی ہستیاں بھی ضرور جمع کریں۔ طعنہ دینے والے بھی درست ہوں گے، یہ لیکن اکیلے خواب دیکھنے والے عمران خان کا نہیں، اس معاشرے کی ساخت اور سوچ کا بھی المیہ ہے۔ خالص دودھ اور صاف آدمی جسے گوارا ہی نہیں۔ ڈر انھیں یہ لاحق ہونے لگتا ہے کہ کوئی شفاف آدمی اقتدارمیں آکر احتساب پراگر تل گیا تو اس حمام میں کوئی نام نہاداپنی پگڑی بچا نہ پائے گا۔ الا ماشااللہ حال جہاں کے اکثر کایہ ہے کہ ؎

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

’’سسلین مافیاز ‘‘جیسے عدالتی ریمارکس کا لوگ برا مناتے ہیں، تھانے سے مگر پٹوار تک، اور سرکار دربارسے بازار تک ہر قدم پر ایک عام آدمی کا واسطہ کیاسسلین مافیاز سے نہیں پڑتا؟ توکیا ہم اس سب سے نظریں چرا کے احمقوں کی جنت کے باسی ہوجائیں ؟تو کیاہم کسی شریف کے طولِ اقتدار کی خاطر سیاہ کو سفید کہنے لگ جائیں؟ کیاعوام سے برتے جاتے جانوروں سے بدتر سلوک کو ہم انسانی تکریم کی انتہا لکھنے لگ جائیں؟۔ ۔ ۔ ع

ظلمت کو ضیاء، صر صر کوصبا، بندے کو خدا کیا لکھنا

ذرا زندگی کو نگاہ میں رکھ کے خد الگتی کہئے کہ کیارشوت کے غلیظ روپے اوراعلیٰ سطحی تعلقات کی ناجائزطاقت کے سوا بھی یہاں آدمی شرافت سے جی سکتاہے؟پھرایسے میںاپنی تحقیقی کے مطابق غلط کو غلط کہنے والے کسی رؤف کلاسرا یا سلیم صافی کے خلاف طوفان کیوں نہ اٹھائے جائیں؟بکنے اور جھکنے سے انکار کردینے والوں کے مقابل آنے والے پھر اپنے خاندانی دیوالیہ پن پر سے پردہ کیوں نہ اٹھائیں؟ جان لینا چاہئے کہ پیشہ ورانہ دیانت پر اصرار اور کریز سے باہر نکل کے بلے بازی کرنے جیسی بہادرانہ صفات اپنانے پر اگر اصرار ہوگا تو ا س کی بھی بہرحال ایک قیمت ہوگی، بہادروں کوجو چکادینا پڑے گی، تاریخ کا سبق مگر یہ ہے کہ آخری جیت اہل ِ سازش کی نہیں اہلِ دیانت کی ہوتی ہے، آخری دن صرف انھی کیلئے طلوع ہوتاہے۔ خطا سے مبراکوئی نہیں۔ غلطیاں آدمی ہی سے ہوتی ہیں، بہادری مگر وہ چادرکہ سو عیب جوچھپا لیتی ہے اورآدمی کو محبوبیت کی رد ااوڑھادیتی ہے۔ سوشل میڈیا کی آڑ سے وار کرنے والوں کی بہادری معلوم۔ اردو محاورہ ایسوں کے لیے یہ ہے۔ ٹٹی کی اوٹ سے شکار کھیلنے والے۔ قرآن نے اسے منافقوں کی روش بتایاکہ جو صرف کسی اوٹ اورکسی آڑہی سے بروئے کار آسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی بساط ہی نہیں۔

شستہ و شائستہ اور بے ساختہ لکھنے والے عامر ہاشم خاکوانی کوحیرت ہوئی کہ اس کے باجود لوگ رؤف کلاسرا جیسے بے باک آدمی کے حق میں کیسے بول پڑے؟ اپنے سچ کے زہر سے سب کو دشمن بنا لینے والے ا یک شخص کے اتنے دوست آخر کیوں اورکہاں سے نکل آئے؟ ایک ہی توجیہ سمجھ میں آئی کہ حکمرانوں کو ہو نہ ہو، زندگی کو بہرحال اپنے بہادروں سے پیار ہے۔ لالچی اور خوفزدہ جسم حکمرانوں کے زر خرید ہو سکتے ہیں، کچھ دل مگر صرف جرأت مندوں کے لئے دھڑکنے کو بنے ہیں۔ مکی دور کے مظالم بھرے دور کی بات ہے۔ صدیقِ اکبر قرآن پڑھتے توکفار کے دل ان کے قابومیں نہ رہتے۔ سچائی کے دشمنوں نے زندگی ابو بکرؓ پر تنگ کر دی توابوقحافہ کا بیٹا ہجرت کیلئے نکل کھڑا ہوا۔ راہ میںکہیں مکے کا ایک سردار ملا۔ پوچھا کدھرکا ارادہ ہے ؟کہا، جہاں اللہ لے جائے کہ جب اہلِ مکہ اپنی سرزمین مجھ غریب پر تنگ کر چکے، تومسافرت کہیں تو لے ہی جائے گی۔ تڑپ کے ا س کافر سردار نے صدیق ِاکبر سے یہ کہا، جس بستی سے ابو بکر جیسے لوگ ہجرت کرجائیں، وہ بستی رہنے کے قابل کہاں رہتی ہے ؟ اپنی پناہ میں واپس لاکے اس سردارنے صدیق کو بستی کے بیچ بسایا۔ صرف بہادر ہی بہادروں کی قدراور سچائی کی قیمت سمجھ سکتے ہیں۔

اس قوم کو اگر زندہ رہنا اور وقارسے جینا ہے، تو اپنے بہادروں کی اسے قدر کرنا ہوگی۔ بلا تفریق اور بغیر کسی قید کے۔ منافقت پر نہیں، معاشرے جرأتمندانہ دیانت پر جی سکتے ہیں۔ جرأت و دیانت آسمان سے نہیں برستی، وہ آدمیوں کی صورت معاشروں کو انعام میں ملتی ہے۔ سو دائیں بائیں کی تفریق کے بغیراور اپنوں یا مخالفوں کی تقسیم میں پڑے بغیر بہادروں کی قدر کرنا سیکھئے۔ ہر دو رمیں چولابدل لینے والے قلم فروش نہیں، اپنے موقف پر ڈٹنے والے سلیم صافی اور رؤف کلاسرا جیسے صحافی آپ کے محسن ہیں۔ ان سے اختلاف کیجئے، پر کبھی انھیں رسوا نہ کیجئے۔