1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. انڈونیشین ویڈیو اور سعودی تصویر میں عورت

انڈونیشین ویڈیو اور سعودی تصویر میں عورت

جذبات کی شدت سے اس کا نازک بدن لرز رہا تھا۔ وہ ایک دبلی پتلی انڈونیشین لڑکی تھی۔ چڑھی ندی جیسے جذبات اس کے وجود کو یوں لرزا اور لہرا رہے تھے گویا وہ آندھیوں میں رکھا کوئی چراغ ہو۔ اس کے لرزتے لبوں سے لفظ کم اور سسکیاں زیادہ برآمد ہو رہی تھیں۔ گو وہ اپنی قومی زبان میں شدتِ جذبات سے بھیگے لہجے میں رک رک کر بات کر رہی تھی، جسے سمجھنا اس عاجز کے لیے محال تھا، بدن بولی اور جذبات کی لیکن اپنی ایک تاثیر ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ مترجم انگریزی میں ترجمہ بھی کرتا جاتا تھا۔ ظاہر ہے، صرف بات کا، اس کے جذبات کا ترجمہ کہاں ممکن تھا، اس کی ضرورت بھی نہ تھی، کہ وہ ’سراپا جذبات‘ کیمرے کے سامنے موم بتی کی طرح پگھلتی جاتی تھی۔ اس کے آنسوؤ ں اور لفظوں کو اس کی کوئی پروا نہ تھی کہ وہ ہزاروں لوگوں کے سامنے کھڑی روتی اور بولتی تھی اور یہ کہ کیمرے کی آنکھ کے ذریعے اسے لاکھوں لوگوں نے دیکھنا تھا۔ ایسے ہر تردد سے بے نیاز وہ کسی سحر میں ڈوبی برستے آنسوؤں کے سنگ اپنی کہانی کہتی جاتی تھی۔

کہانی اس کی مختصر تھی۔ وہ عیسائی مذہب کی پیروکار تھی۔ اس کا تعلق عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تھا۔ گذشتہ دو ماہ سے وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اسلام پر لیکچرز سنتی رہی تھی، اسی دوران کسی مبارک لمحے اسلام کی روشنی سے وہ نہا گئی۔ اس کے وجود پہ طاری یہ ساری لرزش اور اس کے من میں جاری یہ ساری طغیانی اسی ابدی سچائی کو پا لینے کے طفیل تھی۔ اسلام کی دہلیز پر کھڑی، اب وہ چاہتی یہ تھی کہ اسلام کا یہ بے مثل داعی، اسلام کی عظیم الشان عمارت میں داخل ہونے میں اس کی مدد کرے۔ ایسا کرنے سے پہلے البتہ وہ کچھ اطمینان بھی حاصل کر لینا چاہتی تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ نیا مذہب اس کے والدین سے اس کے تعلق اور سلوک کی کیا راہیں متعین کرے گا؟ وہ خدشوں کا شکار تھی کہ اسے جنم دینے والے والدین کہیں نئے سفر پر اس کے لیے غبارِ راہ یا یادِ ماضی نہ بن کے رہ جائیں۔ یہی فکر اسے کھائے جاتی تھی۔ ظاہر ہے، اسے بتا یا گیا کہ خواہ اس کے والدین اپنے ہی مذہب پر قائم رہیں، اس کے باوجود ان کے ساتھ، وہ اس سے کہیں بہتر سلوک کر سکے گی، جتنا کہ وہ اپنے سابقہ مذہب میں رہ کر کیا کرتی تھی یا کر سکتی تھی، یہ جان کر اس کا وجود کسی ساکن جھیل کی طرح پر سکون ہو گیا۔ چنانچہ اطمینان سے اس نے توحید کا اقرار اور نبی ٔ آخر الزماں کی نبوت کا اعتراف کر لیا، اب وہ مسلمان ہو چکی تھی، البتہ ان طوفان خیز لمحوں میں بھی، وہ اپنے والدین کی ہدایت کے لیے دعا کی درخواست کرنا نہیں بھولی تھی۔ اس کے وفورِ جذبات اور رقت آمیز کیفیات نے حاضرین کے آنسو ؤں کو گالوں کی راہ دکھا دی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے والدین کے لیے خلوصِ دل سے دعا کر دی۔

کبھی کچھ نہ بھیجنے والے اپنے مہربان حافظ ندیم احمد کی طرف سے بھیجی گئی، یہ ویڈیو، یہ عاجز عین اس دن دیکھ رہا تھا، جس دن سوشل میڈیا پر ایک اور تصویر ’وائرل‘ (مقبول عام) ہو چکی تھی۔ یہ تصویر ایک سعودی جوڑے کی تھی۔ بظاہر یہ ایک سادہ تصویر تھی، مگر یہ انھی تصویروں میں سے ایک تھی، چینی کہاوت کے مطابق جو ہزار لفظوں پر بھاری ہوتی ہیں۔ اس تصویر کی وضاحت تو شاید کئی ہزار لفظوں سے بھی ممکن نہ تھی۔ یہ تصویر سعودی ہسپتال کے ایک کمرے کی تھی۔ کمرے میں مختلف قسم کی میڈیکل نالیوں میں جکڑا ایک مریض بے سدھ پڑا تھا۔ سیاہ برقعے میں ملبوس ایک خاتون اس مریض کے بستر کے ساتھ زمیں پر سر نیہوڑائے بیٹھی تھی۔ تصویر تو اتنی ہی تھی، کہانی مگر اتنی نہ تھی۔ بستر پر لیٹا مریض اس خاتون کا میاں تھا۔ میاں کو بیمار ہوئے کامل پچیس برس گزر چکے ہیں، ان پچیس سالوں سے یہ خاتون اسی طرح اپنے خاوند کے بستر سے لگی بیٹھی ہے۔ ان پچیس سالوں میں کوئی دن ایسا نہیں آیا، جب یہ باوفا خاتون ضروریات کے علاوہ یہاں سے ٹلی ہو۔ میاں تو بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہوا تھا، میاں کی خاطر اس نے مگر اپنی تندرست جوانی ہسپتال کی نذر کر دی۔ ایسا بھی نہیں کہ میاں کو کبھی ہوش آتا ہو، وہ چند لمحے بیوی کو دیکھ پاتا ہو یا کچھ بات کر سکتا ہو۔ وہ اس سے کہیں زیادہ معذور اور مریض ہے کہ اپنی بیوی کی وفا کو دیکھ سکے، اس کا شکریہ ادا کر سکے یا اسے تسلی کے دو بولوں سے ذرا سی تسکین پہنچا سکے۔ وفا کی یہ پتلی اور محبت کی مٹی سے گندھی یہ بیوی مگر اس سب سے بے نیاز محبت کی ڈور سے بندھی وفا کی رسم نبھائے جا رہی ہے۔ یوں کہ دنیا کے لیے مہرو وفا کی مثال بن گئی۔ لاریب ! منہ زور جوانی اور رنگین زندگانی کے پچیس برس ایک نیم جاں مریض کی چارپائی سے لگ کے کاٹ دینا، ایثار و قربانی کی ایسی بے مثل اور لازوال کہانی ہے کہ جس کا محض تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ یہ دونوں واقعات آدمی کو اقبال سے اتفاق کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں، یقینا ؎

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے، زندگی کا سوزِ دروں

مرد اپنی افتادِ طبع میں دراصل درویش واقع ہوا ہے۔ اس کی طبیعت میں ایک طرح کی لاپروائی اور عدمِ سلیقہ کارفرما ہے۔ یہ عورت ہے، جس کی شیریں الفت اور اس سے جڑے رشتوں نے مرد کو گھر سے باندھ رکھا ہے۔ عورت زندگی کا خوشنما رنگ بھی ہے، رونق و رعنائی بھی ہے اور متاعِ زندگی کو باندھ رکھنے کی مضبوط گرہ بھی ہے۔ مرد کے پاؤں میں اگر عورت کی بیڑی نہ ہوتی تو یہ شاید کبھی گھر نہ لوٹتا۔ کاندھے پر اپنی ضروریات کی پوٹلی لادھے یہ نت نئی منزلوں کی طرف اڑا چلا جاتا۔ یونان سے فیثا غورث نکلا تو وہ ایک جوان مرد تھا، مصر سے ہوتے ہوئے، اس نے ہندوستان کے موجودہ صوبہ بہار میں آ کے مہاتما بدھ سے ملاقات کی۔ اس جہاں گردی سے وہ وطن لوٹا تو عمرِ عزیز کے پچاس سال خرچ کر چکا تھا۔ بیوی بچے اگر وہ رکھتا تو برضا و رغبت اتنا عرصہ کیسے غائب رہ سکتا؟ یقینا یہ عورت ہے جو مرد کو کھونٹے اور گھر کو سلیقے سے آشنا رکھتی ہے۔ نظامِ زندگی کی عمارت میں عورت کی قربانی وہ سیمنٹ ہے، جس کے بغیر حیات کی کوئی اینٹ بھی سلیقے سے استوار نہیں ہو سکتی۔ عورت مکاں کو گھر اور افراد کو خاندان میں بدل دیتی ہے۔ ایک پھول کی سی نگہداشت کی طرح سرکار نے دائم اپنی بیویوں کا اور ان کی خواہشات کا خیال رکھا۔ حدی خواں کی لے سے قافلے کے اونٹ سبک رفتار ہوئے تو آنجنابؐ نے فرمایا، انجشہ ! شیشوں جیسے نازک بدنوں کی خاطر آہستہ خرامی اختیار کرو۔ آپ فرماتے، عورتوں کے متعلق میرے نصائح پلے باندھ لو۔

القصہ، جذبات کے بہتے دھارے میں والدین کے لیے لرزتی انڈونیشیائی دوشیزہ ہو یا جوانی کو مٹی میں رولے کامل پچیس سال سے شوہر کی چارپائی سے لگی سعودی خاتون۔ یہ عورت کے ایثار و قربانی کا بلیغ استعارہ ہیں۔ زندگی کا دریا عورت کی قربانی پر رواں ہے۔ بہن، بیٹی، بیوی، ماں اور دیگر مہربان رشتوں کی شکل میں، عورت کب سے ہمارے گھروں، اداروں اور معاشروں میں محبت، احترام اور پہچان مانگتی ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ خدا کی خاطر اس مقدس مخلوق کی عظمت کو ہم اعتراف اور اس کی زندگی کو جائز حقوق دے سکیں؟