1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. سیاستِ موجودہ کی بیگمات کے آنسو!

سیاستِ موجودہ کی بیگمات کے آنسو!

شاعر کی نوکِ زبان پر بھی کبھی کیا کچھ اتر آتا ہے۔ الہام قلم کی نوک پر ہوتا ہے۔ صحافت کے ایک استاد نے ایک بار ٹھیک یہی بات کہی۔ لکھنے والے ہی اس کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ چند لفظوں میں زمانوں کی بات کہہ دینا، ایک شاعر پرکبھی یوں سہل ہو کے اتر آتا ہے کہ دوسرے جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ غزل اگرچہ کچھ دوستوں کو پسند نہ آئی، غزل کے دو مصرعے اور کبھی ایک ہی، حقائق کو یوں نچوڑ دیتے ہیں کہ پہروں آدمی کا دل آباد اور طبیعت شاد رہے۔ کسی ایک مصرعے کے جہان ِ معانی پر غور کرتے، عالم کبھی یوں ہوجاتاہے کہ جوانی میں شہرت او رموت سے جا ملنے والی شاعرہ نے، محسوس کیا اور بیا ن کیا، یعنی روح تک اتر گئی تاثیر مسیحائی کی

خواجہ حسن نظامی نے سیاست کے ستم کے ایک پہلو پر کتاب کامل کتاب لکھی۔ یعنی دلی کے اجڑنے اورتاجِ باشاہت کے تار تار ہوجانے پر جو قوم اور ملک پہ بیتی تھی سو بیتی تھی، وہ بھی مگر ایک الگ اوردلگداز داستان تھی، جو شاہی حرم کی بیگمات پر بیت گئی۔ ریشم و کمخواب میں سانس لیتی زندگی کو جب نوکیلے پتھروں پر بسر کرنا پڑے تو کیفیت وہی ہوتی ہے، جیسی روئی کے گالے کانٹوں پر گھیسٹ ڈالے جائیں۔ خواجہ صاحب نے درد کی یہ ساری کرچیاں اور الم کی یہ ساری برچھیاں چن کے ایک کتاب تخلیق کی اور عنوان دیا، بیگمات کے آنسو۔ کتاب میں سموئی اس ساری کیفیت پر ایک شاعر کچھ کہتا تو اتنا بھی بہت ہو جاتا۔ دیکھو عروج والو میرا زوال دیکھو

اردو لٹریچر میں مرزا ہادی رسوا کے امراؤ جان ادا سے بہتر کوئی ناول نہیں لکھا گیا۔ یہاں تک کہ آج یہ اردو ناول کی کلاسیک مثال ہے۔ ناول جس قدر ایک اجڑ ی تہذیب کی تہہ میں اتر کے جزئیات کی مکمل تصویر بن جاتاہے، فنی اعتبار سے بھی یہ اتنا ہی کامل اور اتنا ہی لازوال ثابت ہوتاہے۔ اردو ادب کے طلبا کواردو ناول بطور مثال پیش کرنے کے لیے یہی ناول ہاتھ میں تھما دیا جاتاہے، کہ لیجئے صاحب، ناول جسے کہتے ہیں وہ ایسا ہی کچھ ہوتاہے، یعنی کہ یوں! میں نے کہا کہ بزم ناز چاہئے غیر سے تہی سن کے ستم ظریف نے اٹھا دیا کہ یوں! اس ناول کا خلاصہ مرزا ہادی رسو ا نے خود ادا کی زبان سے ایک ہی شعر میں یوں سمو دیاکہ تصویر کا ہر رنگ ٹھیک اپنی جگہ پرآکے روشنی دینے لگا ؎

کس کو سنائیں حالِ دل زار اے ادا

آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی

یہ سب کچھ آج کی سیاست کے تناظر میں براہِ راست دل اور دماغ پر اترتا جاتا ہے اور کی بورڈ پر تھرکتی انگلیوں کی وساطت سے لفظوں میں ڈھلتا جاتاہے۔ سوچتا ہوں میاں صاحبان پر اتری آزمائش پر ایک شاعر کس طرح شہر آشوب لکھتا۔ سچ کہوں تو اپنے خوابناک اور رومانوی نظریات کے باوجود میاں صاحب پر اتری کیفیات درد سے ہمکنار کر جاتی ہیں۔ کس شان سے اس خاندان نے سیاست کی بساط میں قدم رکھا۔ کس طور طاقت کے سارے مراکز اس ایک خاندان کی قسمت کی لکیروں میں مدغم ہوتے گئے۔ مہاجر خاندان پر اتفاق فاؤنڈری کے ذریعے سے ایسے ایسے اتفاقات اترے کہ لوہا ہی نہیں ملک وسلطنت بھی رام ہوتے گئے۔ جوڑ توڑ سے بھی بنیں اور بھاری اکثریت سے بھی حکومتیں بنیں۔ تین بار وزیراعظم رہنے کا اور پاکستان کی طاقت اور دل پنجاب پر فرماں روائی کا موقع ملا اور ملتا چلا گیا۔ کس طرح وہ وقت بھی آئے کہ حکومت کا نام میاں برادران ہوتا گیا۔ کس طرح سیاست کے گر اور ہنر اس ایک خاندان پر کھلتے چلے گئے۔ کس طرح ادارے رائیونڈ کی طرف مڑتے چلے گئے۔ کام بھی کیا او رایسا کہ اس ناکردہ کار ملک میں ابھی تک بہرحال ا سکی مثال میسر نہیں۔ گو کک بیک اور ترجیحات کے حوالے سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور آج کل کچھ زیادہ ہی۔ ایسی مشکلات بھی آئیں کہ لگا، یہ خاندان اب نہیں۔ حالات لیکن بدل بھی گئے۔ گرنے والا پرندہ پھر گھونسلے میں کبھی ٹک نہیں پاتا۔ تخت سے گر کرانھیں مگر تخت پانے کا اعزاز پھر مل گیا۔ آج کیفیت لیکن یہ کہ کوئی رسوائی سی رسوائی ہے۔ کوئی ہزیمت سی ہزیمت ہے۔ حکومت بھی اپنی ہے اور ستم بھی خود اپنے آپ پر۔ آزاد بھی ہیں او رپابند بھی۔ عالم یہ ہے کہ لہجہ سوکھ چکا ہے، ادائیں روٹھ چکی ہیں۔ چہروں کے رنگ فق ہیں۔ لفظ ساتھ نہیں دیتے۔ وضاحت گلے پڑ جاتی ہے۔ ہر چیز کے پیچھے سائے نظر آتے ہیں۔ کر و فر رخصت ہو چکا۔ اپنے پرائے ہو چکے۔ بیساکھیوں نے وزن سہارنے سے انکار کر دیا۔ زمیں وزن سہارنے کو اور آسمان سایہ فراہم کر نے کو تیار نہیں۔ پاؤں سے لپٹنے والی دھول سر پر راکھ بن کے گر رہی ہے۔ جس جمہوریت کے نام پر جنگ لڑنا پڑی ہے، قوم کے پاس وہ شعور ہی نہیں کہ جمہوریت کا تقدس سمجھ بھی سکے۔ یہ شعور تعلیم سے آنا تھا۔ تعلیم مگر دی نہیں گئی۔ شور شرابے، طاقت، دھونس اور الزام و بدنامی کو ہمیشہ جنگ جیتنے کے لیے استعمال کیا گیا، آج اس ہنر کے بہتر کاریگروں سے پالا پڑ گیاہے۔ اقتدار کا انجام یہی ہے۔ طاقت کا انجام یہی ہے۔ حکومت صرف ایک باقی رہتی ہے۔ وہ جو اہل شعور کے دلوں پر کی جائے، یا عوام کو دی گئی راحتوں اور آسودگیوں پر کی جائے۔ توجہ اور طرف مگر زیادہ تھی۔ تازہ شاعر جانے کیا کہیں گے، عرصہ ہوا ایسی ہی ایک بے وقعتی کی تصویر میر تقی میر کھینچ گئے ؎

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

لوگ سمجھتے ہیں مقتدر اداروں سے بگڑی تو یہ دن دیکھنا پڑے۔ زمیں پر لیکن طاقتور تو ہوتے ہیں، لیکن اتنے بھی نہیں کہ کسی کی کامل تقدیر اور قسمت ہی کھا جائیں۔ کچھ اور بھی لگتا ہے۔ دنیا مکافاتِ عمل بھی ہے اور کبھی ایک معاملے کی سزا کسی دوسرے معاملے میں بھی دیکھنا پڑ جاتی ہے۔ اپنا احتساب صاحبان ِ اقتدار کا کام، ہمارے لیے اتنا دیکھ لینا بھی بہت کہ جب روٹھنے والا روٹھ جائے توتخت پر مسکرانے والے گلیوں کے وہ فقیر ہوجاتے ہیںکہ جن کے بارے پنجابی شاعر نے یہ کہا، ککھ جنھایں تھیں ہولے! دوسرے لفظوں میں ؎

پھرتے ہیں حشر میں تیرے داد خواہ خراب

تو پوچھتا نہیں تو کوئی پوچھتا نہیں