1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ذیشان نور خلجی/
  4. اپنے پیاروں کی خاطر

اپنے پیاروں کی خاطر

تئیس اپریل بروز جمعہ

آج موسم بہت سہانا ہے رات بھر ہونے والی بارش کے باعث فضاء میں قدرے خنکی ہے۔ میں صبح تیار ہو کر خوشگوار موڈ میں گھر سے نکلا ہوں اور گاڑی میں بیٹھتے ہی ہاتھوں کو سینیٹائز کر لیا ہے ماسک بھی پہن رکھا ہے لیکن آفس پہنچ کر میری وہی بد احتیاطی کی روٹین شروع ہو چکی ہے۔ اب نہ تو مجھے کسی ماسک کا ہوش ہے اور نہ ہی سینیٹائزر کا۔ ایس او پیز کیا ہوتے ہیں یہ لفظ ہی میرے لئے اجنبی ہو چکے ہیں۔ میں بڑھ چڑھ کر لوگوں سے ایسے مصافحے اور معانقے کر رہا ہوں جیسے میری ان سے آخری ملاقات ہو۔ ویسے غور کیا جائے تو جو میری حرکتیں ہیں ملاقاتیں آخری آخری بھی ہو سکتی ہیں۔

جمعہ کے وقت میں نے شہر کی بڑی جامع مسجد کا رخ کیا ہے یہاں کے امام صاحب پڑھے لکھے اور ایک معتدل مزاج عالم دین ہیں اسی باعث عوام کی کثیر تعداد یہاں جمعہ کی نماز میں شرکت کے لئے آتی ہے۔ موجود تو یہاں پولیس کی نفری بھی ہوتی ہے لیکن وہ بے چارے اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ کسی نمازی کو ایس او پیز کی پابندی کروا سکیں۔ عربی خطبہ کے بعد امام صاحب نے صفیں درست کرنے کا عندیہ دیا ہے اور تاکید مزید کی ہے کہ نمازی حضرات وقفے وقفے سے کھڑے ہونے کے ساتھ ماسک کا استعمال بھی لازمی کریں۔ ان کا کہنا ہے آپ لوگوں کو بھلے ہی اپنی زندگی عزیز نہ ہو لیکن مسجد میں ایک کثیر تعداد ایسے نمازیوں کی بھی ہے جن کی زندگی انتہائی قیمتی ہے۔ میں چونکہ اپنا ماسک گاڑی میں ہی رکھ آیا ہوں سو امام صاحب کی تاکید کو ہوا میں اڑاتے ہوئے ہاتھ تکبیر تحریمہ کے لئے بلند کر دیے ہیں۔

سلام پھیرنے کے بعد مجھے خواہ مخواہ کی جلدی لا حق ہو گئی ہے سو دعا مانگے بغیر ہی اٹھ کے باہر کی طرف دوڑ لگا دی ہے لیکن خارجی دروازے پر میرے سے بھی ذیادہ بے صبرے لوگ پہلے سے موجود ییں اب اس رش کی فضاء میں ایس او پیز کیا ہوتے ہیں، میری طرح شاید ان لوگوں کو بھی اندازہ نہیں۔ ہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ماسک پہن رکھے ہیں لیکن یہ لوگ انتہائی جدید ریسرچ پر یقین رکھتے ہیں جس کے مطابق کورونا وائرس انسان کے ناک اور منہ کے ذریعے داخل ہونے کی بجائے صرف ٹھوڑی پر حملہ آور ہوتا ہے سو یہ لوگ حتیٰ الامکان کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی ٹھوڑی لازمی طور پر محفوظ رہنی چاہئیے، ناک اور منہ کا کیا ہے کورونا وائرس ان راستوں سے جسم میں داخل ہوتا ہوگا، یہ ایک پرانی ریسرچ ہے۔

میں اب بازار کا رخ کرتا ہوں میری طرح دوسرے بہت سے لوگ بھی یہاں جمع ہو رہے ہیں کیوں کہ لاک ڈاؤن کے باعث کل بازار بند رہے گا اس لئے سوچا ہے خریداری آج ہی کر لی جائے اللہ جانے پھر کب موقع ملے۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ کورونا کی موجودہ لہر کے پیش نظر کل مارکیٹ میں چھٹی ہو گی لیکن آج شاید کورونا کی چھٹی ہے سو میں یہاں بھی کسی قسم کی احتیاط سے مکمل طور پر احتیاط برت رہا ہوں۔

گھر واپسی پر نہ تو میں نے اچھے طریقے سے ہاتھ دھوئے ہیں اور نہ ہی کپڑے بدلے ہیں کیوں کہ یہ ساری احتیاطیں پچھلے سال تک محدود تھیں جب کورونا کی پہلی لہر کا ظہور ہوا تھا اب چونکہ میں کورونا سے گھل مل چکا ہوں اس لئے اب یہ مجھے کچھ نہیں کہتا۔

کھانا کھانے کے بعد میں نے ٹی وی آن کیا ہے ہمسائیہ ملک کے حوالے سے خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں وائرس کا حملہ انتہائی شدت اختیار کر چکا ہے اور ایک ایک دن میں کورونا کے لاکھوں کیسسز رجسٹر ہو رہے ہیں۔ لیکن میں چائے کے کپ کے ساتھ ان خبروں سے بجائے عبرت پکڑنے کے انہیں انجوائے کر رہا ہوں کیوں کہ میرا ماننا ہے جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

شام کو ایک دفعہ پھر گہرے بادل چھا چکے ہیں سو میں بچوں کو لے کر قریبی پارک میں آ گیا ہوں ہماری طرح یہاں دوسری بہت سی فیملیز بھی آئی ہوئی ہیں۔ بچے خوب ہلا گلا کر رہے ہیں نوجوان اپنی ٹولیاں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم لوگوں نے اپنا میلہ لگایا ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی تیسری لہر کتنی شدید ہے دنیا کس آگ میں جل رہی ہے اور عنقریب یہ آگ ہمارے گھر میں بھی پہنچنے والی ہے ہمیں اس کا کچھ ہوش نہیں ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا

رات سٹڈی میں بیٹھا ڈائری لکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں اگر میری یہی حرکتیں رہیں اور آگ سچ مچ میرے گھر تک پہنچ گئی پھر کیا بنے گا؟

دیکھیے، میں تو ٹھہرا سدا کا کٹھور دل آدمی، سو کل کا مرتا مرتا آج مر جاؤں میری جانے بلا لیکن کیا میں اپنے پیاروں کو کورونا وائرس کی آگ میں جلتا ہوا دیکھ سکوں گا، میں تو جیتے جی مر جاؤں گا۔ اور اگر اس ظالم کورونا نے مجھے ہی آ لیا تو میرا تو کچھ نہیں بگڑے گا کہ میں تو مر چکا ہوں گا لیکن میرے مرنے کے بعد کیا میرے پیارے زندہ رہ پائیں گے ان کی تو دنیا ہی اجڑ جائے گی۔

میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے اپنی نہیں لیکن اپنے پیاروں کی فکر ضرور کرنی ہو گی مجھے اپنے پیاروں کے لئے ہی سہی لیکن کورونا کی اس شدید ترین لہر میں احتیاط برتنا ہو گی۔ پچھلے سال اگر میں نے کورونا کی پہلی لہر کا مقابلہ اپنی احتیاط کے بل بوتے پر جیت لیا تھا تو اس دفعہ میں اتنا بے پرواہ کیوں ہو چکا ہوں۔ مجھے سوچنا ہوگا اس سے پہلے کہ میں سوچنے کے لئے موجود ہی نہ رہوں۔