1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ذوہیب حسن بخاری/
  4. جون ایلیا، ایک تجزیاتی مطالعہ

جون ایلیا، ایک تجزیاتی مطالعہ

سب سے پہلے تو جون ایلیا کے سبھی چاہنے والوں کو انکے جنم دن یعنی 14 دسمبر پر مبارکباد۔

اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آج سید جون ایلیا کا جنم دن ہو اور میں جون کو یاد نہ کروں۔ اپنی تحریر کا آغاز جون کے اس شعر سے کر رہا ہوں

میں اپنے سینے میں جَل رہا ہوں

میں اپنی آنکھوں میں بُجھ رہا ہوں

میں نے آج اپنی ذاتی کتب خانہ سے جون کی سب کتب نکالیں ہیں اور اس وقت میرے سامنے پڑی ہوئی ہیں۔ جون کی سب کتب اپنے سامنے رکھ کر میں یہ سوچ میں پڑ گیا کہ میں جون کے چاہنے والوں کو جون کی زندگی کا کونسا رُخ اپنی تحریر کے ذریعے سے دکھانے کی کوشش کروں۔ جون پر لکھنے کے لیے میرے پاس شاید ایک ضخیم کتاب جتنا مواد موجود ہے۔ خیر کافی دیر سوچنے کے بعد قلم اُٹھایا ہے اور یہ مضمون جون ایلیا کی عقیدت میں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ پیشِ خدمت ہے۔

"جون ایلیا موجودہ دور کے ایک ایسے عمدہ شاعر کہ جنکا کلام اچھوتا، منفرد، خوبصورت اور یکتا ہے۔ مزید حُسن آپ کے اندازِ ادائیگی سے پیدا ہوتا تھا۔ آپ یو ٹیوب پر جون کا کلام جون سے ہی سن کر سُرور کی بلندیوں تک جا پہنچتے ہیں۔

میں جون کے کلام سے یونیورسٹی کے زمانے میں آگاہ ہوا۔ میری جون کی شاعری میں حد سے زیادہ دلچسبی انکے جداگانہ تخیل کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ جون دور حاضر کی شاعری کی اس اکیڈمی کا نام ہے کہ جسکا اپنا ردیف قافیہ اور منفرد اور اچھوتا اسلوب ہے۔ میں مختلف شعرا کے کئی اشعار میں سے جون کے لکھے شعر کو بآسانی پہچان سکتا ہوں۔ جون بحیثیت شاعر تو خاص وعام میں شہرت رکھتے ہی ہیں لیکن انکے بارے میں یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک سکالر، فلاسفر اور بائیوگرافر بھی تھے۔ انکی کتاب "فرنود" اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ وہ شیعہ خاندانی پس منظر رکھتے تھے انکا خانوادہ برصغیر کے چند بڑے علمی گھرانوں میں سے ایک ہے۔ جون ایلیا ذاتی طور ترقی پسند مارکسسٹ نظریات کے داعی تھے۔ میری ذاتی لائیریری میں انکی تمام کتب موجود ہیں۔ اپنی عمر کے ٣۲ویں سال میں پہلے دفعہ پچھلے سال مئی میں سندھ کی اس عظیم دھرتی پر قدم رکھا اور کراچی ائیر پورٹ پر اترتے ہی میں نے اپنے اوپر یہ واجب کرلیا تھا کہ جون کی مرقد پر حاضری دونگا، رواں سال مارچ میں میں نے اس عظیم شخصیت کی مرقد پر حاضری دی۔ انکی مرقد پر لکھا شعر تصویر میں انکے درویش مزاجی کا گواہ ہے۔ ملاحظہ ہو!

میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

اپنے تمام قارئین کو یہ ضرور کہوں گا کہ وہ جب بھی آئیں کراچی آئیں تو جون کی مرقد پر ضرور حاضری دیں۔ انکی قبر سخی حسن قبرستان میں ہے۔

جون ایلیا کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد پانچ ہے، جنکے نام بھی جون ایلیا کے کلام کی طرح منفرد ہیں۔

1۔ شاید

2۔ یعنی 2007

3۔ گُمان 2004

4۔ لیکن 2006

5۔ گویا 2008

یہاں پر محترم خالد احمد انصاری کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جوکہ جون ایلیا کے خاص حلقہ احباب میں 1991 سے لے کے 2002 تک رہے۔ یہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے جون کا بکھرا کلام اور تحریریں سمیٹیں انکی تدوین کرکے باقاعدہ چھپوایا۔ مزید براں مختلف موضوعات پر انشائیوں کا مجموعہ، اردو نثر کا نثری شاہکار "فرنود 2012" شائع کیا۔ ہم جون کے چاہنے والے اس عظیم کام پر محترم انصاری صاحب کے شکر گذار ہیں۔

اسکے علاوہ جون کی چند دوسری تصانیف و تراجم درج ذیل ہیں۔

1۔ مسیحِ بغداد، حلاج

2۔ اسماعیلیت، شام و عراق میں

3۔ مطالعہ طواسین

4۔ اسماعیلیت، یمن میں

5۔ تہزیب

6۔ رہائش وکُشایش

7۔ فرنود

8۔ تجرید

9۔ مسائلِ تجرید

10۔ رسالہ حکمتی

11۔ عدد

12۔ کتاب الطواسین

13۔ قاطیغوریاس (CATEGORIES)

14۔ اخبار الحلاج

15۔ بارامانیاس

16۔ جوھرِ صقلی

17۔ جومطریا

18۔ اسماعیلیت، جزیرہ عرب میں

19۔ ایساغوجی

اور

20۔ حسن بی صباع

جون کی ایک اور کتاب "راموز" کا مختصر سا تعارف انکے جنم دن پر قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ یہ کتاب بھی خالد احمد انصاری صاحب نے مرتب کی ہے۔ کتاب کا تعارف کچھ یوں ہے کہ یہ کتاب ایک طویل نظم پر مشتمل ہے جسکو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر ایک کیلیے "لوح" کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ جیسے لوحِ کتاب، لوحِ رجز، لوحِ آمد اور لوحِ دائرہ وغیرہ۔ کئی حصوں پر مشتمل یہ طویل نظم بہت سی موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے بھی ہے اور بقول پروفیسر سحر انصاری کہ "راموز کا موضوعاتی کینوس وسیع ہے اور اس میں لفظوں کا استعمال ایک خاص رُخ رکھتا ہے۔

ادبی پیرائے کے ساتھ ساتھ حسبِ ضرورت Slang کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ "اس طویل نظم میں جون نے کائنات کی جہتوں، خدا اور انسان کو، رشتوں کو، ڈر اور خوف کو، غم و کرب کو، حیات و موت کو ناانصافیوں کو، دہشت گردی اور سماجی ناچاقیوں وغیرہ سب کو موضوع بنایا ہے۔

اس طویل نظم سے چند اقتباسات "لوحِ دائرہ" کے عنوان سے پیشِ خدمت ہیں۔

ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺋﺮﮮ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﮬﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﺎﭨﺘﺎ ﮨﻮﮞ

ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﮨﮯ

ﻟﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﺮ ﻣﺮﯼ ﺭﻭﺡ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ

ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺠﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ

ﯾﮧ ﺷﺎﮨﺮﺍﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺎﺩﺛﮧ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ

ﻣﺠﮭﮯ ﺑﭽﺎ ﻟﻮ، ﻣﺠﮭﮯ ﺑﭽﺎ ﻟﻮ ﮨﺠﻮﻡ ﺁﺩﻡ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ! ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﮐﻮﺉ ﺻﺤﺮﺍ ﮨﮯ، ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺭﮨﮕﺰﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ

ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺁؤﮞ ﮔﺎ، ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺁﮮ ﮔﯽ

ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﭨﮑﺮﺍئے ﮔﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﻄﺎﻟﺘﻮﮞ ﺳﮯ

ﻣﮕﺮ ﻣﺮﺍ ﺑﺎﻝ ﺑﺎﻝ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﮨﮯ ﻣﺮﮮ ﺟﺒﺮﺁﮔﮩﯽ ﮐﺎ

ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﺎ ﺑﺪﻥ ﮨﻮﮞ

ﺟﻮ ﭼﭗ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮍ ﺟﺎﮮ ﮔﯽ

ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺍ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺯﯾﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﭨﮭﯿﺮﮮ ﮔﺎ

ﻣﯿﺮﮮ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺧﺮﺍﺷﯿﮟ ﺳﻠﮓ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ

ﻭﮦ ﺁﺧﺮﮐﺎﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻟﻮﺡﻣﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﺣﺎﺷﯿﮧ ﺑﻨﯿﮟ ﮔﯽ

ﺟﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺑﻨﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺍ ﮔﻼ ﺧﺸﮏ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ

ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﭼﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻭﮌﮬﮯ ﮨﻮئےﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻡ ﺑﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ

ﺩﮬﻨﺪ ﻧﮯ ﭼﻮﮎ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﺮﺝ ﮐﺎ ﻣﺜﻠﺚ ﻧﮕﻞ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ

ﺳﮑﻮﺕ ﮐﺎ ﺯﻣﮩﺮﯾﺮ ﺳﻤﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ

ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻨﮕﯿﮟ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﮨﻮﮞ ﺟﺴﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ، ﺟﺴﮯ ﺧﯿﺎﺑﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﺼﺐ ﮐﺮ ﮐﮯ

ﻣﺠﺴﻤﮧ ﺳﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﻤﺎﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﻭﺯﯾﻨﮧ ﭘﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ

ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻨﮕﯿﮟ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﺩﮬﻨﺪ ﮐﯽ ﻃﯿﻠﺴﺎﻥ ﺍﻭﮌﮬﮯ ﮨﻮﮮ ﮨﯿﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ

ﻣﮕﺮ ﺳﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﺟﺎﻝ ﺍﺏ ﺟﻠﺪ ﺑُﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﮮ

ﺳُﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﮮ

ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺍﯾﮏ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ

ﺟﻮ ﺯﻣﯿﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﻮﮞ ﻧﮕﻞ ﻟﮯ ﮔﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﻮﻥﺑﺴﺘﮧ ﻧﮕﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ

ﺯﻣﯿﻦ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺮﺩﺷﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺩﮮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﭘﯽ ﮐﺮ ﻧﺠﺎﺕ ﭘﺎﺉ

ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺠﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ

ﺧﻮﻥ ﭘﯿﻨﮯ ﺩﻭ ﻣﺠﮭﮯ، ﺧﻮﻥ۔۔

ﮔﺮﻡ ﻭ ﮔﻨﺪﻡ ﮔﻮﮞ ﺟﻮﺍﮞ ﺭﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ

ﻧﺮﻡ ﻭ ﻧﺎﺯﮎ ﮔﻮﻝ ﭘﺴﺘﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ

ﮨﯿﮟ ﺑﮩﻢ ﭘﯿﻮﺳﺘﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﮔﻨﺪﻣﯽ ﺭﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺐ

ﺍﻥ ﻟﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮎ ﺷﮕﺎﻑﺁﺗﺸﯿﮟ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﮯ

ﺧﻮﻥ ﭘﯿﻨﮯ دو۔۔ خون۔۔

مذکورہ کتاب کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں انصاری صاحب نے جون کے ہاتھوں سے لکھی چند تحریریں بھی شامل کی ہیں جو کہ جون کے چاہنے والوں کیلیے یقیناً مزید دلچسپی کا باعث ہے۔