1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ذوہیب حسن بخاری/
  4. مےفانگ اور اکیس دسمبر- صدیوں کے ہمسفر

مےفانگ اور اکیس دسمبر- صدیوں کے ہمسفر

آج اکیس دسمبر ہے یعنی سال کی سب سے لمبی رات۔ اس مناسبت سے آج کا مضمون آپ دوستوں کیلیے پیش خدمت ہے۔

میرا پسندیدہ ترین مشغلہ کہہ لیں یا اب تو عادت ہی کہہ لیں کہ میں نئی سے نئی جگہیں دیکھنے کا شوقین ہوں اسی طرح مختلف علاقوں کی روایات، رہن سہن، رسم و رواج، ثقافت، لباس، کھانے، بازار اور تہوار وغیرہ کو قریب سے دیکھنا اور ان چیزوں سے جُڑے اپنے مشاہدات، جذبات اور واقعات کو قلم اور کیمرے کے ذریعے سے محفوظ کرنا مجھے بہت پسند ہے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے پروفیشن بھی کچھ اسی قسم کا ملا جو مجھے میرے روزگار کے ساتھ ساتھ میرے اس مشغلہ، عادت یا شوق کو پورا کرنے کا موقع بھی دیتا رہتا ہے۔ مزید یہ کہ اپنی روزمرہ ذمہ داریوں کی وجہ سے بہت سی ایسی جگہیں جن میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے، پر شدید خواہش کے باوجود بھی نہیں جاسکا مگر میں ان جگہوں کے بارے میں پڑھتا اور علاقائی حضرات سے جہاں بھی موقع ملے اپنی ذہنی و علمی آسودگی کیلیے پوچھتا رہتا ہوں۔

اسی حوالے سے آج میرے علم میں بلتستان کے ایک دلچسپ تہوار "مےفنگ یا مہہ فنگ" کا اضافہ ہوا۔ میرے بَلتی دوست یا اُردو لغت کے اساتذہ تہوار کے نام کے ہجے غلط لکھنے پر درگزر فرمائیں۔ چونکہ مجھے یہ تہوار اس کے منانے کا انداز اور اس سے منسوب کہانیاں قصے بہت دلچسپ لگے تو سوچا کہ اپنے دوستوں اور قارئین کی خدمت میں پیش کردوں۔

بلتی تہوار "مےفنگ " وادی بلتستان جسکا صدر مقام سکردو ہے اور جہاں بَلتی قبیلہ آباد ہے میں صدیوں سے سال کی سب سے لمبی رات یعنی اکیس دسمبر کو ہر سال منایا جاتا ہے۔ مے فنگ بَلتی زبان میں "آگ/ روشنی کا رات کو لہرانا" کے معنوں میں آتا ہے (بلتی دوست تصیحح فرمائیں) ویسے تو اسکا دورانیہ تین دن سے ایک ہفتہ تک رہتا ہے لیکن اس تہوار کی جو سب سے معقول وجہ تسمیہ راقم کی نظر میں ہے وہ وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ موسم سرما کی سب سے لمبی رات کے آنے یا اس کے بعد دنوں کے بڑا ہونے کی خوشی میں ایک میلہ جسکا اہتمام اس خطے میں کیا جاتا ہے۔ مزید براں اس تہوار کے ذریعے بلتی قبیلے کے اپنے جُداگانہ انداز، رسوم و روایات اور ثقافت کو جاننے میں بہت مدد ملتی ہے اور بلتی روایات کا حامل یہ تہوار بلتیوں کی مہمان نوازی، ناچ گانوں کے انداز، عمدہ کھانوں اور پہناووں کو اُجاگر کرتا ہے۔

اس تہوار کو لے کرکے بلتی لوگوں میں بہت سے قصے کہانیاں پائی جاتی ہیں جس میں سے سب سے دلچسپ بات ہے کہ اس تہوار کا آغاز کئی صدیاں پہلے ایک آدم خور بادشاہ کے قتل کیے جانے کی خوشی میں کیا گیا۔ قدیم بَلتی روایات کے مطابق اس تہوار کا منایا جانا بَلتی لوگوں کیلیے نیک شگون کا باعث بھی ہے۔

سال کی سب سے لمبی رات کو جب کہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی کئی درجے نیچے ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر مقیم بَلتی قبیلہ کے لوگ ہاتھوں میں روشن مشعلیں اُٹھائے اور گھماتے ہوئے اپنے اپنے گھروں سے علاقائی موسیقی پر رنگ برنگے قبائلی لباسوں میں ملبوس، ناچتے گاتے اپنے اپنے علاقے کی کسی نسبتاً کُشادہ جگہ پر اِکھٹے ہوجاتے ہیں روشن مشعلیں رات گئے تک گھماتے اور علاقائی موسیقی کی چاشنی میں رقص کرتے رہتے ہیں۔ بلتی انداز کے ڈھول کی تھاپ پر پہاڑوں میں گونجتی علاقائی موسیقی، سرد ترین رات اور آگ کے بڑے بڑے آلاؤ اور سینکڑوں لوگوں کے ہاتھوں میں گھومتی روشن مشعلیں انتہائ خوشگوار اور سحر انگیز ماحول پیدا کردیتی ہیں اور سردی کا احساس تک نہیں رہتا۔ میرا خیال ہے کہ ان دیومالائی پہاڑوں کے درمیان موجود اس ماحول کو خصوصاً روشن گھومتی مشعلوں کو اگر آسمان سے دیکھا جائے تو یہ کیا ہی نظارہ پیش کرتے ہوں گے۔ راقم کم از کم اس شاندار نظارہ کی منظر کشی کرنے سے قاصر ہے۔ جدید امتزاج نے اس رسم میں آتش بازی کو بھی شامل کردیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر موم بتیاں بھی قطار در قطار لگائی جاتی ہیں۔ ضیافت کا اہتمام بھرپور طریقے سے کیا جاتا ہے جسمیں بلتی طرز کے لذیز پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔

یہ تہوار کسی حد تک ہمارے ہاں شبِ برات کو کیے گئے چراغاں سے مماثلت ضرور رکھتا ہے مگر اپنی ایک جداگانہ پہچان اور روایات کا حامل ہے۔ اسی طرح میں یہ بھی قارئین کی دلچسپی کیلیے بتاتا چلوں کہ اسی دن یعنی سال کی سب سے لمبی رات اکیس دسمبر کے حوالے سے ایک تہوار ملکی سطح پر ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں بھی منایا جاتا ہے جسکو "یلدہ" کا تہوار اور اس رات کو "شبِ یلدہ" یا "شبِ چلہ" کہا جاتا ہے۔ جس میں سُرخ رنگ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور رات دیر گئے تک سب لوگ مل بیٹھ کر پھل خصوصاً تربوز اور انار کھاتے ہیں۔ شبِ یلدہ چونکہ راقم کا موضوع نہیں ہے اس لیے اس کے حوالے سے کوئی معلومات کا یہاں تذکرہ نہیں کیا جارہا۔ ضمن میں اسکا ذکر چونکہ موضوع کے اعتبار سے ضروری تھا لہذہ کردیا گیا ہے۔ قارئین اپنی دلچسپی کیلیے اس بارے میں خود مختلف ذرائع سے جانکاری حاصل کرسکتے ہیں یا راقم سے کمنٹس میں پوچھ بھی سکتے ہیں۔

آخر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ تہوار کسی بھی قوم کے ثقافتی ورثے کی علامت کے طور پر دیکھے جاتے ہیں اور انکی ترویج ہم سب پر علاقائی اور معاشرتی طور پر فرض ہے۔ بلتستان کے مذکورہ تہوار کے حوالے سے جتنی معلومات میں نے اپنے دوستوں کی دلچسپی کیلیے تحریر کی اس میں میرا عملی مشاہدہ شامل نہیں ہے۔ اس تحریر میں بتائی گئی تہوار کے حوالے سے معلومات میں اگر کوئی کمی بیشی ہوگئی ہو تو اسکے لیے معذرت قبول فرمائیں اور اس سلسلے میں اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں۔