1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ذوہیب حسن بخاری/
  4. منٹوازم

منٹوازم

آج 18 جنوری ہے سعادت حسن منٹو کی برسی ہے۔ سوچا چند سطور اپنے احباب کی خدمت میں پیش کرکے منٹو صاحب سے اپنی عقیدت کو بیان کردوں۔ احباب راقم کی اس تحریر پر دل کھول کر تبصرہ کریں۔ مگر آپ سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس کے صرف چوبیس سالہ قلم کے سفر نے بلاشبہ اس کو افسانہ نگاری کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا کر رکھ دیا۔
بچپن یا لڑکپن میں تھا شاید کہ منٹو کا نام پہلی بار سنا شاید ایک ماسٹر تھے ان سے تھوڑی بے تکلفی تھی انہوں نے بتایا کہ منٹو نام کا ایک کہانیاں لکھنے والا ہے جسکو بے حیائی کے سوا کچھ لکھنا نہیں آتا۔ مجھے کہانیاں ناول پڑھنے کا شوق ویسے ہی بہت تھا اس زمانے میں مظہر کلیم ایم اے مرحوم کے عمران سیریز کا بہت دیوانہ تھا۔ بے حیائی کا ماسٹر جی سے سن کر اس تگ و دو میں لگ گیا کہ منٹو کی لکھی کہانی کہیں سے ڈھونڈی جائے۔ ہمارے ہمسائے میں ایک لائبریری تھی وہاں سے ڈرتے ڈرتے پتا کیا مگر نہیں ملی۔ اسی دوران میں میٹرک کرکے والدین کی نگاہوں سے دور اٹک کے گورنمنٹ کالج میں مزید تعلیم حاصل کرنے پہنچ گئے۔ یہاں کی لائبریری سے منٹو کی ایک کتاب ہاتھ لگ گئی اس کو فورا پڑھ ڈالا۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا پڑھا اور فینٹسی کہاں تھی۔ تو منٹو کو ایک بُرا رائیٹر سمجھ کر پڑھنا چھوڑ دیا۔ یہ میرا منٹو کے ساتھ پہلا تعارف تھا۔ اور غالبا 2001 کی بات تھی۔
وقت گذرتا گیا اور جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا شعور اور آگاہی کی دنیا میں خوش قسمتی سے داخل ہوا۔ جامعہ پنجاب آکر ایک جمیعت کے دوست نے ایک دفعہ منٹو کا ذکر پھر سے کیا اور مجھے معاف کیجیے گا نہایت ہی فحاش طریقے سے کیا۔ میں اس طرح کی بات کرنے یا لکھنے کا عادی نہیں ہوں نہ ہی حق میں ہوں مگر چونکہ موضوع تحریر ان چند سطور کے بغیر پوری نہیں ہوگی اس لیے لکھنے پر مجبور ہوں۔ پھر بھی حد درجہ کوشش کرونگا کہ سنسر الفاظ کا استعمال کروں۔ اس جمعیت کے دوست نے منٹو کو سیکس کا رائیٹر قرار دیتے ہوئے انتہائی حقارت سے اسکا تذکرہ کیا تو مجھ سے رہا نہ گیا میرے استفسار پر اس نے مجھے "کالی شلوار" پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اگرچہ میں اس سے شدید نظریاتی اختلافات رکھتا تھا مگر اس مشورے پر میں آج بھی اسکا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ بس "کالی شلوار" پڑھنے کی دیر تھی بندہ ناچیز حساسیت اور شعور کی ایک ایسی دنیا سے روشناس ہوا کہ اس کے بعد آج تک اس گہرائی سے نکل نہیں پایا۔ اور نہ ہی نکلنا چاہتا ہے۔
1912 میں پیدا ہونے والا سعادت حسن منٹو 1934 میں صرف بائیس سال کی عمر میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے سانحے کے پس منظر میں ایک کہانی لکھتا ہے اس کے بعد اس کے قلم کو خون لگ جاتا ہے۔ اس اوائل جوانی کی عمر میں ہی وہ وکٹر ہیوگو، آسکر وائلڈ، چیخوف اور گورکی کے کلام نہ صرف پڑھتا ہے بلکہ ان سب کا ترجمہ بھی کرڈالتا ہے۔
منٹو صاحب کی چند تصانیف درج ذیل ہیں:
1۔ ٹھنڈا گوشت
2۔ سرکنڈوں کے پیچھے
3۔ لذتِ سنگ
4۔ بغیر اجازت
5۔ پھندے
6۔ یزید
7۔ چغد
8۔ تلخ، ترش اور شیریں
9۔ گنجے فرشتے
10۔ لاؤڈ سپیکر
11۔ سیاہ حاشیے
12- سڑک کے کنارے
13۔ اوپر، نیچے اور درمیان
14۔ خالی بوتلیں خالی ڈبے
15۔ برقعے
16۔ ، رتی، ماشہ، تولہ
17- بادشاہت کا خاتمہ
18- دھواں
19- انارکلی
20- شکاری عورتیں
21- نمرود کی خدائی
22- افسانے اور ڈرامے
منٹو باقیات جن کے نام درج ذیل ہیں:
1۔ سرگزشت
2۔ اسیر
3۔ ویرا
4۔ گورکی کے افسانے (مترجم: سعادت حسن منٹو)
5۔ روسی افسانے (مترجم: سعادت حسن منٹو)
6۔ منٹو کے افسانے
اس کے علاوہ منٹو کی دو لازوال تحریریں "پنڈت نہرو کے نام پنڈت منٹو کا پہلا خط" اور "بغیر عنوان کے" وغیرہ۔
مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں ذرا جھجک نہیں کہ جو جرات سماج کو دیکھنے کی آپ کو منٹو صاحب دیتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک ذی شعور شخص سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ منٹو صاحب کو پڑھنے کے بعد سماج کے اس بے لگام گھوڑے کو حرف تنقید نہ بنائے جس کو مرد کہتے ہیں۔ بھلے وہ منہ سے مصلحتاً اقرار نہ بھی کرے مگر دل سے منٹو صاحب اس کو ان معاشرتی بے راہرویوں کا ادراک ضرور کرادیتے ہیں۔
بقول استاد دامن مرحوم
جاگن والیاں رَج کے لُٹیا اے
سوئے تسی وی او، سوئے اسی وی آں
بھانویں مونہوں نہ کہئیے، پر وچو وچی
کھوئے تُسی وی او، کھوئے اسی وی آں
43 سال کی قلیل عمر لے کر دنیا میں آنے والا منٹو اپنے لفظوں سے ہر زمانے کے سماج کے اندر خاموشی سے پروان چڑھنے والی بے حیائی کو جھنجھوڑ گیا۔ منٹو نے وہی لکھا جو اس کی نظر نے دیکھا۔ منٹو کے قلم نے آج سے قریبا 80 سال قبل معاشرے کا وہ پہلو اجاگر کیا جو کہ موجود تو ہوتا ہے مگر اس کو کوئی بیان نہیں کرتا۔
اس قلیل سی عمر کا نوجوان فہم و ادراک کے موتی اپنی قلم سے بانٹتا رہا۔ اس نے بتلایا کہ عورت اور کپڑے میں فرق ہے۔ آپ ایک کپڑا خریدتے اور اس کو بہترین طرز سے سلوا کر زیب تن کرتے ہیں اور کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعد اس کو پھینک دیتے ہیں یہی حال معاشرہ عورت کے ساتھ بھی کرتا ہے۔
منٹو شاید پہلا انسان تھا جس نے یہ بتایا کہ طوائف بھی انسان ہی ہوتی ہے۔ مالی، خاندانی اور معاشرتی حالات اس کو کوٹھے پر لے آتے ہیں وہ خوشی سے ایسا نہیں کررہی ہوتی۔
مرد کا کوٹھے پر جانا مجبوری نہیں اسکی خوشی اور مرضی سے ہے البتہ عورت کا کوٹھے پر ہونا مجبوری ہے۔ اس میں خاص طرح کا فرق ہے۔ منٹو وہ انسان تھا جس نے مرد کو آئینہ دکھایا اس کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ اصل ذلت عورت کے باہر رہنے میں نہیں مرد کی بیمار سوچ میں ہے۔
عورت پر بے حیائی کی نظر رکھےمرد کو حرف تنقید بناتے ہوئے منٹو صاحب فرماتے ہیں۔
" باہر کی عورت گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم (مرد) اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں جنکی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر ٹِکی ہوتی ہے"
ایک اور جگہ کیا خوبصورت بات کرتے نظر آتے ہیں "رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار یہی دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ یہاں اوپر سے لے کر نیچے تک سب دکھاوا اور جھوٹ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ "
لیجیے ایک اور جملہ منٹو صاحب کا پڑھیے اور دھنیے " کب تک مجبور نسوانیت تحفظ کی نام نہاد چاردیواری میں شہوانیت کا شکار ہوتی رہے گی"
منٹو صاحب مرد کو بھی پردہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں کہتے ہیں۔ " پردہ لایعنی ہے۔ ۔ ۔ ۔ پردہ ہوتا ہے جہالت کا، پردہ ہوتا ہے غفلت کا، راز کا، گمنامی کا۔ ۔ ۔ ۔ عورت جہالت نہیں، غفلت نہیں، راز نہیں، گمنامی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ "
منٹو اپنے لفظوں اور پیغام میں ہمیشہ زندہ رہنے والا اور ہر طرح کے معاشرے کو آئینہ دکھانے والے ایک لازوال عہد کا نام ہے۔ منٹو پر تنقید بھی ہمیشہ ہوتی رہے گی اس پر بے حیائی کے فتوے بھی لگتے رہیں گے۔ اس کی تعریف کرنے والے اور اسکے چاہنے والوں پر کفر کے فتوے بھی لگتے رہیں گے۔ منٹو صاحب کی اپنی زندگی کے آخری چوبیس سالوں میں منٹو کے ساتھ بھی تو یہی ہوا۔ تین نوکریوں سے بے دخلی، دس کے قریب فحاشی کے مقدمے اور ادبی لڑائیاں ان کی زندگی میں ان کو جھیلنا پڑیں۔ عدالت کے بارے میں منٹو صاحب کا نقطہ نظر بھی کسی دلچسپی سے خالی نہیں۔ کہتے ہیں "عدالت ایسی جگہ ہے جہاں توہین برداشت کرنا ہی پڑتی ہے۔ خدا کرے کسی کو جسکا نام عدالت ہے اس سے کبھی واسطہ نہ پڑے" آپ 8 دہائیاں قبل لکھے اس جملے کو آج کے تناظر میں ہی دیکھ لیجیے آپکو منٹو کی باتیں غلط نہیں لگیں گی۔
منٹو مرنے کے بعد پوری دنیا میں اپنے پیغام کو لیے پھیل گیا۔ وہ اکثر اپنی زندگی میں یہ کہتا ہوا پایا گیا کہ سعادت حسن مر جائیگا اور منٹو نہیں مرے گا۔ میں اسے پیغام کو "منٹوازم" کا نام دیتا ہوں ممکن ہے مجھ سے پہلے بھی کسی نے یہ ٹرم استعمال کی ہو۔ ہم جیسے پاگل لوگ فحاشی اور عریاں پن کو منٹوازم نہیں کہہ پائیں گے۔ معاشرے کے اندر جہاں جہاں عورتوں کے حقوق کا استحصال ہورہا ہے، جہاں جہاں غیر اخلاقی اقدار پروان چڑھ رہی ہیں جہاں جہاں ایک طاقتور جنس کمزور جنس کو اپنی شہوانی و نفسانی خواہسشات کی بھینٹ چڑھانے کی سعی کرے گی وہاں وہاں جو بھی قلمی و عملی ردِعمل پیدا ہوگا منٹوازم کہلائے گا۔ بیمار اور بے شعور اذہان جوکہ شہوت کے مارے ہیں، منٹوازم پر پابندیاں لگائیں گے (آج کل کے تناظر میں) وہیں پر منٹو ازم اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ ان سے ٹکرائے گا اور ان کو پاش پاش کردے گا۔ آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے چند دن قبل ایک بااختیار وزیر نے اوریانیت کے مارے نے فلم "منٹو" پر پنجاب پاکستان میں پابندی لگادی اور منٹوازم ردعمل میں کیسا حرکت میں آیا کہ عام سے عام آدمی نے جس نے منٹو صاحب کا نام بھی نہ سنا تھا نے منٹو فلم دیکھ ڈالی۔ منٹو سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا یہاں تک کہ راقم کو اس اوریانیت کے مارے وزیر کا شکریہ ادا کرنا پڑگیا کہ منٹو کا پیغام پھیلانے کا سہرا آپ کے ہی سر جاتا ہے۔
اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا اختتام منٹو صاحب کو فیض صاحب کے اس شعر کے ذریعے نذرانہ عقیدت پیش کرکے کررہا ہوں
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گذر گئے
راہِ یار ہم نے قدم قدم
تجھے یادگار بنادیا۔