1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. 8 مئی:تھیلیسیمیا کا عالمی دِن!

8 مئی:تھیلیسیمیا کا عالمی دِن!

دُنیا بھر میں آج تھیلیسیمیا سے آگاہی کا دن منایا جارہا ہے، خون کا مرض تھلیسیمیا ہرسال لاکھوں افراد کو موت کی وادی میں پہنچا دیتا ہے۔ اس دِن مختلف سیمینار منعقد ہوتے ہیں، جن میں تھیلیسیمیا کے بچاؤ کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کیا جاتا ہے۔ تھیلیسیمیا ایک موذی مرض ہے جو سرخ خون کے ذرات میں شامل ہیموگلوبن نامی پروٹین کی نامناسب مقدار کی تشکیل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ناقص خون کی تشکیل کی وراثت میں منتقل ہونے والی یہ سب سے عام بیماری ہے۔ بعض لوگ اسے اینیمیا بھی کہتے ہیں۔
تھیلیسیمیا کے مریض میں اس کے آثار کچھ دوسرے امراض سے ظاہر ہو سکتے ہیں۔ جیسے ہلکی نشوونما، کم بھوک، یرقان، خون کی کمی یعنی اینیمیا، دل کے امراض اور جگر کا بڑھنا وغیرہ۔ یہ ایک وراثتی بیماری ہے جو نہ تو چھونے سے نہ کھانے سے اور نہ ہی جراثیم سے پھیلتی ہے۔ یہ نسل در نسل والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ تھیلیسیمیا جیسی موروثی بیماری کے سب سے زیادہ متاثرین ایشیا، افریقہ اور بحیرہ روم سے منسلک ممالک میں موجود ہیں۔ تھیلیسیمیا (Thalassemia) ایک موروثی بیماری ہے یعنی یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد کو منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے مریض کے جسم میں خون کم بنتا ہے۔
جینیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں جنہیں الفا تھیلیسیمیا اور بی ٹا تھیلیسیمیا کہتے ہیں۔ نارمل انسانوں کے خون کے ہیموگلوبن میں دو الفا alpha اور دو بی ٹا beta زنجیریں chains ہوتی ہیں۔ گلوبن کی الفا زنجیر بنانے کے ذمہ دار دونوں جین (gene) کروموزوم نمبر 16 پر ہوتے ہیں جبکہ بی ٹا زنجیر بنانے کا ذمہ دار واحد جین HBB کروموزوم نمبر 11 پر ہوتا ہے۔
الفا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیموگلوبن کی الفا زنجیر alpha chain کم بنتی ہے جبکہ بی ٹا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیموگلوبن کی بی ٹا زنجیرbeta chain کم بنتی ہے۔ اس طرح خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔
مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین قسمیں ہیں۔ شدید ترین قسم تھیلیسیمیا میجر کہلاتی ہے اور سب سے کم شدت والی قسم تھیلیسیمیا مائینر کہلاتی ہے۔ درمیانی شدت والی قسم تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا کہلاتی ہے۔
ایک طرح کا تھیلیسیمیا کبھی بھی دوسری طرح کے تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا یعنی الفا تھیلیسیمیا کبھی بھی بی ٹا تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بی ٹا کبھی الفا میں۔ اسی طرح نہ تھیلیسیمیا مائینر کبھی تھیلیسیمیا میجر بن سکتا ہے اور نہ ہی میجر کبھی مائینر بن سکتا ہے۔ اسی طرح ان کے مرض کی شدت میں اضافہ یا کمی نہیں ہو سکتی۔
تھیلیسیمیا کی تین اقسام ہیں۔ جن میں تھلیسیمیا میجر، تھلیسیمیا مائنر اور تھلیسیمیا انٹر میڈیا۔ تھلیسیمیا مائنر دُنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ تھلیسیمیا مائنر کے مریض کو نہ تو کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ایک مکمل صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی تصدیق صرف لیبیارٹری ٹیسٹ سے ہی ممکن ہے۔ یہ خود تو ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں مگر اپنی بیماری کو اپنے بچوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔ جس کے بچاؤ کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے۔ تھیلیسیمیا میجر سب سے زیادہ مہلک ہے۔ تھلیسیمیا میجر کے حامل مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ مریض کو ہر دو سے چار ہفتے بعد خون لگانا پڑتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کا جسم مفلوج ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ان کی زندگیاں بلڈ بینک کی محتاج ہو جاتی ہیں۔ نہ تو یہ صحت مند لوگوں کی طرح کھیل کود سکتے ہیں اور نہ ہی تعلیمی میدان میں سرفہرست رہ سکتے ہیں۔ ایسا مریض اپنی ساری زندگی اذیت میں ہی مبتلا رہتا ہے۔ انہیں خون لگنے کی وجہ سے اور بہت سی بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں۔ ایسے بچوں کے والدین اور خاندان مالی وسائل کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ نامناسب سہولیات علاج کی بدولت اکثریت کی جلد موت واقع ہو جاتی ہے۔ تھیلیسیمیا میجر کا مریض تب جنم لیتا ہے جب اس کے دونوں والدین یعنی ماں اور باپ بھی تھیلیسیمیا کے حامل ہوں۔ اگر دونوں ماں اور باپ نارمل ہوں تو بچے بھی نارمل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایک تھیلیسیمیا مائنر کا حامل ہو تو 50 فیصد بچے مائنر اور 50 فیصد بچے نارمل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر دونوں مائنر کے حامل ہوں تو 25 فیصد نارمل 50 فیصد مائنر اور 25 فیصد میجر کے حامل بچے پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر دونوں ماں اور باپ تھیلیسیمیا میجر کے حامل ہوں تو لازمی سارے بچے میجر کے حامل ہی پیدا ہوں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ دس سے زیادہ اور سالانہ 40 ہزار سے زائد تھیلیسیمیا میجر کے حامل بچے پیدا ہو رہے ہیں۔
دُنیا بھر میں 80 ملین سے زائد تھیلیسیمیا کیرئر ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد تھلیسیمیا مائنر ہیں۔ جبکہ ایک لاکھ سے زائد تھیلیسیمیا میجر کے حامل مریض ہیں جن میں سالانہ چھ ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ ایک ایسی موروثی بیماری ہے،۔ اس عارضے کا ایک علاج بورن میرو ٹرانسپلانٹ کا آپریشن بھی ہے جو کافی مہنگا ہے۔ پاکستان میں اس آپریشن کا خرچ لگ بھگ ایک کروڑ ہے۔ جس کے بعد 70 فیصد بیماری سے نجات جبکہ 30 فیصد امکانات ہیں کہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ یعنی اس بیماری کا کوئی مکمل علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں اتنا مہنگا علاج ہر کسی کے لیے ممکن نہیں اسی لیے زیادہ تر آگاہی پر کام کیا جاتا ہے تا کہ لوگ اس مہلک موروثی بیماری سے بچ سکیں۔ جن ممالک سے یہ مرض ہمارے ملک میں آیا ان میں یونان، اٹلی اور سائپرس ہیں جن میں آج تھلیسیمیا میجر کی شرح صفر ہے۔ اس کے علاوہ دُنیا بھر میں بہت سے ممالک نے اس مرض پر بروقت آگاہی اور قانونی اقدامات کی بدولت قابو پالیا ہے۔ آج دوسرے مسلم ممالک جیسے ایران اور ترکی میں نکاح سے پہلے تھلیسیمیا سکریننگ ٹیسٹ قانونی طور پر لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں تھلیسیمیا میجر کے مریضوں کی شرح کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔
پاکستان کو بھی بروقت ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے اس کے حوالے سے آگاہی پیغامات نشر کرنے چاہییں۔ اس کے علاوہ نکاح سے پہلے تھلیسیمیا کی سکریننگ کو لازمی و قانونی عمل قرار دینا چاہیے۔ تاکہ غریب اور لاعلم لوگوں کو اس اذیت نما موروثی بیماری سے بچایا جا سکے۔ پاکستان میں تھلیسیمیا میجر کے مریض کی اوسط عمر 10 سے15 سال ہوتی تھی۔ جو اب 20 سے 30 تک ہو گئی ہے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیاکے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور ایک مریض پر انتقال خون سمیت دیگر دواؤں سے علاج کی مد میں سالانہ 2 لاکھ 85 ہزار روپے خرچ آتا ہے جس کا مطلب سالانہ پاکستانی قوم28 ارب سے زیادہ تھیلیسیمیا کے بچوں پرخرچ کررہی ہے۔ پاکستان میں این آئی بی ڈی میں کی جانے والی تحقیق اور جینوم ٹیکنالوجی کی مد دسے Hydroxyurea یوریا نامی دوا سے 40 فیصد سے زیادہ مریضوں میں خون لگنا بند ہوگیا ہے۔ اس دوا کے استعمال سے متاثرہ بچوں کے جسم میں دوبارہ خون بننا شروع ہوجاتا ہے اور ان مریضوں کوخون لگوانے کی ضرورت پیش نہیں آتی مذکورہ دوا پر کی جانے والی تحقیق کے بعد اب تک 2 ہزار تھیلیسیمیا کے بچوں میں خون لگنا بند ہوگیا ہے اگر مذکورہ دوا متاثرہ بچوں میں استعمال کرائی جائے تو سالانہ 12 ارب روپے کی بچت ہوگی اور سالانہ 5 لاکھ خون کی بوتلیں بچائی جاسکتی ہیں اس سے بچے ہیپاٹائٹس بی اور سی اور ایڈز جیسے مہلک امراض سے بھی محفوظ ہوجائیں گے۔ تھیلیسیمیا سے بچاؤکا موثر پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے10ہزار بچے سالانہ یہ مرض لے کر پیدا ہورہے ہیں۔ تھیلیسیمیا سے بچاؤکا ایکٹ 2013 میں سندھ اسمبلی نے منظورکرلیا تھا جس پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا ہے، ماہرین نے تشویش کا اظہارکیا ہے کہ موثر پالیسی کے تحت اس مرض کی روک تھام نہ کی گئی تو 2020 تک مریضوں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہوجائے گا۔ آج بھی وطن عزیز میں ہزاروں ایسے والدین ہیں جن کے جگر گوشے اس موزی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ خون کی بوتلیں خرید سکیں۔ ہمارے ہاں خون بلڈ بنک میں موجود بھی ہو تو اثر و رسوخ کے بغیر غریب کی کس نے سنی؟ آج کے دن اگر ہم میں سے ہر ایک ان بچوں کے نام خون کا عطیہ کرے تو اس دن کے منانے کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔
اس دن کے منانے کی مناسبت سے قارئین سے گزارش ہے کہ تھیلیسیمیا جیسی مہلک موروثی بیماری بارے اپنے قریبی لوگوں کو ضرور آگاہ کریں اور اس دِن ان بے سہارا کے لیے خون کا عطیہ دیں جن کی زندگی ہماری مدد کی منتظر ہے۔ تاکہ معصوم بچوں کو اس اذیت ناک وراثتی بیماری سے بچایا جا سکے۔

عابد ہاشمی

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔