1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابرار خان/
  4. بزرگ ضمیر

بزرگ ضمیر

کچھ دنوں سے بادامی طرز کے ایک معصومانہ سوال نے، ہمارے ذہن کو خادم رضوی کافیض آباد بنا رکھا ہے۔ یعنی کسی اور خیال کی آمد و رفت کا سلسلہ منقطع ہے۔

میاں صاحب کے ہاں نا اہلی کے فورًا بعد پیدا ہونے والا انقلابی بچہ ریاست کے بند کمروں میں ہونے والی بڑے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی حرکات کو عوام الناس میں لانے کا سبب بن رہا ہے۔

عام طور پر ہمارے ہاں کے سیاست دان اپنا بیانیہ، اپنی بنیان کے ساتھ ہی بدل ڈالتے ہیں اور انور مسعود کی بنیان، معاف کیجیے گا، نظم

"پاندے او تے پئیندی نئی، پئے جائے تے لیہندی نئی"

کے مصداق، اپنے ہی بیان کی زد میں مارے مارے پھرتے ہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سابق وزیراعظم، میاں محمد نواز شریف، اس دفعہ سیاسی احتیاط کی سبھی کشتیاں جلا کر نکلے ہیں۔ ویسے بھی میاں صاحب کا ضدی بچہ، اپنی ننھی منی، بلکہ نانی منی بیٹی کے ہمراہ جس مخلوق سے مقابلے کا خواں ہے، وہ ایک عرصہ تک شریف خاندان کی خالائی رہنے کے بعد اب خلائی ہو چکی ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی ذہن میں اٹکے اس سوال کی، ماضی کی کئی جائزجمہوری حکومتوں کے کامیاب قتل کے بعد، جفا سےتوبہ کرنے والے زود پشیماں، میاں صاحب کی حالیہ تحریک کا بنیادی محرک موصوف کی جمہوری نشونما اور شعوری پختگی ہے یا محض ایک نووارد، ضدی انقلابی بچے کا ردِعمل؟

ہمارے ایک قابل دوست ریاست علی میر صاحب (جو ریاست کے معاملات پے کڑی نگاہ رکھتے ہیں) نےبالکل عجیب بات بتائی۔ فرماتے ہیں کہ نااہلی کے فورًا بعد میاں صاحب نےکتب بینی کا شوق پیدا کرلیا اور ایک انقلابی کتاب سے جمہوری نروان پایا۔ ایک رات اصولی مراقبےکے نتیجے میں اپنے بزرگ ضمیرکو جھنجھوڑتےہوئے بیدار کیا اور یوں گویا ہوئے؛

"اے میرے ہمراز و ہمزاد، اٹھ، کہ عمر کے اس نازک حصّہ میں وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم ریاست کے فائدے کو ذات پے مقدم جانیں۔ اے طاہرِلاحوتی! جن شانوں پے ہاتھ رکھ کہ میں نے کئی منزلوں کا سفر کیا، کئی حکومتوں کی بہاریں لوٹی، کئی عدالتوں کے منصف خریدے، اب وہ میرےہی خلاف برسرِ پیکارہیں۔ میں اکیلا ہوں، اداس اور مایوس، اٹھو اور میرا ساتھ دو۔

بزرگ ضمیرنے کروٹ بدلی، اور پُرخراش گلے کو صاف کرتے ہوئے بولا،

"چل رین دے، چھیٹر نہ درداں نوں"

میا ں صاحب کے اُترے ہوے چہرے پہ سنجیدگی دیکھی تو بزرگ ضمیرنے کانپتے ہاتھوں سے نظر کی عینک ناک کے عین وسط میں اٹکائی اور عینک کے اوپر سے میاں صاحب کے چہرہ ِ مضطر کا بغور مشاہدہ کرنے لگا۔ زمانہء طالبِ علمی کے بعد یوں پہلی بار عالمِ بیداری میں میاں صاحب سے ملاقات پر خوشی اور حیرت کے ملے جُلے جذبات میں بزرگ ضمیر آبدیدہ سا ہو گیا۔

عشروں پر محیط فراق کے گلے شکوے وصل کی اس نایاب گھڑی میں کہاں ممکن تھے؟ کچھ لمحات کی گہری خامشی کے بعد میاں صاحب نےبزرگ ضمیرسے درد بھرے لہجے میں پوچھا۔

"مجھے کیو ں نکالا؟"

بزرگ ضمیر نے نفی میں سر ہلاکر لاعلمی کا اظہار کیا اور بولے۔

"بڑے میاں، آ پ تو جانتے ہیں کہ میں چار دہایوں سے صاحبِ فراش ہوں۔ آپ سے ملاقا ت کو بھی ایک مدت گزر گئی ہے۔ مجھے تو ٹھیک سے آپ کی شکل بھی پہچانی نہیں جاتی۔ یہ آ پ کے سیدھے سادے، صاف ستھرے سر پر بارش زدہ گندم کی مانند کیا اُ گ آیا ہے اور مجھے بیگم صاحبہ کی خیریت کے متعلق آگاہ کیجیے؟ وہ کہاں ہیں؟ بچے کیسے ہیں ؟

میاں صاحب نے پہلے اپنے اور پھر بزرگ ضمیر کے سر پر ہاتھ پھیرا، بیگم صاحبہ کی بیماری، اور اس سے کئی زیادہ بچوں کی ترقی سی لگنے والے غم کا حال تفصیلا سنایا اور بزرگ ضمیر سے عہد کرتے ہوے بولے۔

"میں نواز شریف وعدہ کرتا ہوں کہ تمھیں کبھی اکیلا نہ چھوڑوں گا۔ آج کے بعد ہم ایک ساتھ جاگیں گے، ایک ساتھ جیئیں گے اور ایک ساتھ مریں گے۔ "

بزرگ ضمیر نے میاں صا حب کے سفر (انگریزی والے) کی روداد سنی تو خود پے قابو نہ رکھ رکھا۔ اور فورًا بولا۔

"مریں آ پ کے دشمن، آپ کی جانب اٹھنے والی میلی آنکھ کو، میری لاش پر سے گزرنا ہوگا۔ "

بزرگ ضمیر کے جوشِ خطابت میں شہبازی جذبات دیکھے تو میاں صاحب کی پریشانی کچھ اور بڑھ گئی۔ کچھ دیر ساکت کھڑے رہنے کی بعد، آنے والے جلسے کی تقریر کی تیاری کے سلسلے میں ساتھ والے کمرے میں موجود مریم بیٹی کے پاس چل دیئے۔

رات گئے جب پرچی، یعنی تقریر مکمل ہوئی تو میاں صاحب تقریر یعنی پرچی کو دہراتے دہراتے اپنے کمرے میں داخل ہوے۔ کیا دیکھتے ہیں کے بزرگ ضمیر دونوں ہاتھوں سے سر تھامےاُکڑوں بیٹھے ہیں۔ کمرے کی دیواروں پر کچھ بولتی تصاویر آویزاں ہیں اور ہر تصویر ایک ہی سوال پوچھ رہی ہے۔

"مجھے کیوں نکالا"؟

سامنے والی دیوار پر بینظیر بھٹو کی تصویر جس میں وہ دونوں ہاتھ آسمان کی جانب مجھے "مجھےکیوں نکالا"؟ اٹھا ے، آبدیدہ ہیں۔ پوچھ رہی تھی۔

دروازے کے بالائی حصے پر، نسبتا چھو ٹی فریم میں قید، یو سف رضا گیلانی بھی اسی ورد میں مشغول تھے۔

"مجھے کیو ں نکالا"

بائیں دیوار پر، پرویز مشرف مریضانہ لباس کو ہاتھ میں پُر مسرے لہراتے اور گھماتے ہوے خوشی کے عالم میں گنگنا رہے تھے۔

"مجھے کیوں نکالا۔ ۔ مجھے کیوں نکالا"

میں نے ریاست علی میر صاحب کی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے استفسار کیا کے میاں صاحب لنڈن میں فلیٹ تو خرید سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بھول چُوک میں کچھ کرپشن بھی کر گزرے ہوں، لیکن اُن کی سیاسی تاریخ شاہد ہے کے کتاب پڑھنے کا الزام سراسر بہتان ہے۔

میر صاحب اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر بولے،

"اچھا بھائی، وجہ کچھ بھی ہو، سوال تو درست ہے نا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ربِ عیسی ؑ اگر اس بچے کو قوتِ گویائی دے تو اس بے بس کا سوال بھی یہی ہو گا۔ "

"کس بچے کا " میں نے حیرت سے پوچھا تو میر صاحب نے خبر پر انگلی کر اخبار مجھے تھما دی۔

"خبر تھی کہ ایک نحیف و ناتواں ماں نے ایک بچے کو رکشہ میں جنم دیا ہے۔ "

ابرار خان

ابرار خان ماسٹر آف اکنامکس اور ڈپلومہ ان لیڈرشپ  ڈیلیمپنٹ پروگرام کے حامل ہیں۔ وہ مزاح نگاری، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری، ترجمہ نگاری کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ڈیویلپمنٹ پرو فیشنل ہیں۔