1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابرار خان/
  4. جمعرات کی شام

جمعرات کی شام

سبھی جانتے تھے کہ جمعرات کی شام کوئی عام شام نہیں، اسی لیے ایک ہفتہ قبل ہی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ جگہ کا انتخاب باقی رہ گیا تھا، جس پر احباب نے ہمارے غریب خانے کو شرفِ قبولیت بخشا۔ واحد وجہ انتخاب یو۔پی۔ایس۔ کی موجودگی تھی کہ ہم لوگ لمحہ بھر کو بھی بجلی کی عدم دستیابی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ آخر سال میں کبھی کبھار ہی تو اس عظیم دن کی آمد ہو تی ہے۔

میں نے سوموار کی صبح ہی جمعرات کو چھٹی کی درخواست دے دی اور یوں سب ضروری کام جمعرات سے قبل نمٹانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ امی کی نظر والی عینک بنوانی باقی رہ گئی تھی جس کیلیے میں جمعرات کی صبح قریب آٹھ بجے ڈی واٹسن بلیو ایریا اسلام آباد دکان پے پہنچا جہاں ایک گھنٹہ انتظار کے بعد آپٹیکل سنٹر کھلا تو سیلز مین سے عرض کیا:

''ارجنٹ ہے، عینک جلدی بنا دیں۔ عصر تک ہر حال میں گھر پہنچنا ہے۔''

سیلز مین نے بتایا کہ عینک شام چار بجے تک ہی مل سکتی ہے، عینک ساز دن 12 بجے کے بعد تشریف لاتے ہیں۔ میرا تو دل ہی بیٹھ گیا۔ پریشانی جب چہرے سے عیاں ہوئی تو سیلز مین نے میری اَن کہی رحم کی اپیل کو سنجیدگی سے لیا اور عینک ساز کو فون کر کے عینک جَلد مل سکنے کی بابت پوچھنے لگا۔ میں نے خود بات کرنے کی درخواست کی تو موصوف نے موبائل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نے انتہائی عاجزی سے عینک ساز کی خدمت میں عرض کیا:

'' بھائی بہت ارجنٹ ہے، میں نے عصر سے پہلے باغ آزاد کشمیر پہنچنا ہے، مری والے رحم کریں تو چار گھنٹے کی مسافت ہے ورنہ پورے پانچ۔ آپ مہربانی کیجیے۔ اگر ایک گھنٹے تک دے دیں تو۔ ۔ ۔ ۔ ''

''نہیں ہو سکتا بھائی ''

عینک ساز نے فون کاٹ دیا۔

میں معصوم بچے کی طرح سیلز مین کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ بے بس نگائیں بس ایک مثبت جنبش کی منتظر تھیں لیکن سیلز مین نے پنڈولم کی طرح گردن ہلاتے ہوئے میری خواہش پر چھری چلائی، مجھے تو جیسے کچھ دیر کیلئے سانپ سونگ گیا ہو۔ کانپتے ہونٹوں سے بس یہی نکلا:

''تو۔ ۔ پھر۔ ؟

سیلز مین نے کندھے اچکنے ہی میں عافیت جانی۔ پھر کچھ دیر سناٹا رہا۔ میں نے خامشی توڑی اور سیلز میں سے پوچھا:

'' آپ ٹی۔سی۔ایس نہیں کر واسکتے کیا؟۔ پلیز میں ایڈریس لکھ دیتا ہوں۔ اور ایڈوانس روپے بھی، خداراہ تکلیف گوارہ کیجئے، مجھے عصر سے پہلے ہر حال میں گھر پہنچنا ہے''

سیلز مین نے ایک لمحہ میری اداس، مجبور اور بے حس و حرکت چہرے کو گھورنے کے بعد حامی بھرلی۔

میری خوشی دیدنی تھی، جی میں آیا کی اس میانہ قد سانولے سیلز مین کو گلے سے لگا لوں اور اظہار تشکر میں کوئی کسر باقی نہ رکھوں۔ لیکن بہکتے جذبات پر قابو رکھا، جلدی جلدی ایڈریس لکھا، بل ادا کیا اور گاڑی اسٹارٹ کر رختِ سفر باندھا۔

یوں تو ہمیں اپنے سبھی گھر والوں سے بے حد انس ہے، بچے کسے یاد نہیں آتے۔ منجلی بیٹی سے کچھ زیادہ ہی اٹیچمنٹ ہے اور سب سے ملے کافی دن بھی تو گزر چکے تھے۔ لیکن آج عصر کے بعد کی اہم ترین مصروفیت کا خیال ہمیں دنیاوی رشتوں سے بہت دور کر رہا تھا۔ بچوں سے محبت اپنی جگہ لیکن ہم کسی بھی طور آج کی شام کسی سے بات چیت کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ چنانچہ ہم نے کچھ غور و فکر کے بعد موبائل اُٹھایا۔ ساس اور سسر دونوں کی خیریت معلوم کی اور انھیں بتایا کہ بچے اُنھیں کس قدر یاد کرتے ہیں۔ سب سے چھوٹے کی متعلق یہ بتایا کہ وہ کئی دنوں سے بس نانو، نانو پکارتا رہتا ہے۔ سسر جی کو عرض کیا کہ سکول میں محرّم کی چھٹیاں ہیں، آپ تو نہیں آ پائیں گے، میں بیگم بچوں کو بجوا دیتا ہوں۔

اس پر دونوں بے حد خوش ہوے۔ مجھے بھی آنے کو کہا لیکن میں نے کسی بہت ضروری کام کا عذر پیش کر کہ معذرت کر لی۔ دوسرا فون بیگم کو کیا:

'' لونگ ویک اینڈ ہے، سکول میں چار چھٹیاں روز روز کہاں ملتی ہیں، اوپر سے انکل آنٹی کا فون آیا تھا۔ بچوں کو بہت یاد کر رہے تھے، انکل تو بس ''وجی وجی'' (چھوٹے بیٹے کا نام) کر رہے تھے۔ میری سنو تم ایک آدھ دن کیلئے ہو آوّ۔ کچھ آوٹنگ بھی ہو جاے گی۔ بیمار رہتی ہو، ہر وقت کام۔ ۔ ۔ ۔ کچھ آرام کر لینا، ہاں بھئی میں کل خود لینے آجاوں گا۔ بس آنٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچوں کو بہت یاد۔ ۔ ہیں۔ ۔ اچھا اچھا۔ ۔ ۔ میں ڈرائیور کو فون کرتا ہوں، چھوڑ آئے گا۔ بھئی جلدی کرنا، ہیں۔ ۔ گھنٹے تک چلی جانا۔ انکل، آنٹی ویٹ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے، او کے۔ ۔ ۔ ۔ خدا حافظ۔ ''

بھارہ کہو سے گزرتے ہوے میں نے بغرض پٹرول گاڑی ایک پمپ پر روکی، اِس اندیشے کے پیشِ نظر کہ انجن بند کرنے اور پھر اسٹارٹ کرنے میں قیمتی وقت کا ضیاع ہوگا، اسے (گاڑی کو) اسٹارٹ ہی رہنے دیا۔ فیولنگ کے دوران خدا جانے کتنی بار میٹر کی جانب نگاہ دوڑائی۔ آج خلاف معمول مشین کچھ زیادہ ہی وقت لے رہی تھی۔ جوں ہی ڈھکن بند کرنے کی آواز میرے چوکس کانوں سے ٹکرائی میں نے آو دیکھا نہ تاو، بس نکل پڑا۔

'' پوڑِس ووے، نسی گیا ہی'' (پکڑو اسے، بھاگ رہا ہے)

کی آوازیں اور کچھ نا قابلِ بیاں الفاظ جو عام طور پر اڈوں، سرکاری سکولوں، سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمز اور قریبی دوستوں کے علاوہ استعمال میں نہیں آتے، دائیں بائیں سے متواتر برآمد ہونا شروع ہوے تو مجھے احساس ہوا کہ موضوع سخن میں ہی ہوں اور وجہ دشنام عدم ادائیگی بل ہے۔

شرمندگی اور ندامت سے سر جھکائے میں نے بل ادا کیا اور زیرِلب ایک مصنوعی مسکراہٹ کیساتھ بس یہ کہ پایا:

''عصر سے پہلے پہنچنا۔ ۔ ۔ ۔ ''

دوران سفر رہ رہ کر شام کے مناظر زہن کے پردے پر نمودار ہوتے رہے۔ دل میں خوشی اور خوف کا عجیب سا امتزاج تھا۔ آنے والی شام کی خوشی اپنی جگہ لیکن دل کی کسی نہاں خانے میں ایک اخلاقی جرم کے ارتکاب کا وہم بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد پیدا ہوتا جسکی وجہ بیگم اور بچوں کو اپنی ہی شعوری بد نیتی کی بدولت اپنے ہی گھر میں نا دیکھ سکنا تھا۔ آج باہر روڈ تک دوڑتے بچے اور دروازے سے جھانکتی، راہ تکتی آنکھیں موجود نہ ہونگی، یہ خیال ایک اداسی ضرور پیدا کرتا لیکن پھر جلد ہی مقصد کی عالمگیریت اس وہم کو آہستہ آہستہ ختم کر دیتی۔

باغ شہر میں پہنچا تو سبھی حاضر دوستوں نے گرم جوشی اور انہی ناقابلِ بیاں الفاظ سے خوش آمدید کہا جن میں پٹرول کی مہک ابھی تک تازہ تھی۔ جسکے بعد ہم نے جلدی جلدی اشیاء خور و نوش یعنی سگریٹ، چپس، ٹھنڈی بوتلیں اور تاش کا پیکٹ لیا اور گھر کو چل دیے۔

گھر پہنچتے ہی ٹی وی آن کیا تو پاکستان ٹاس جیت چکا تھا اور سرفراز (کپتان) ٹکسالی لہجے کی انگریزی میں بیٹنگ فرسٹ کا فیصلہ سنا رہے تھے۔ گرین شرٹس کو یوں ہندوستان کہ سامنے میدان میں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ نہ سفر کی تکان رہی نہ بچوں کی یاد۔ بیگم کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جرابیں صوفے پے ہی پھینکیں، شرٹ اور ٹائی دروا زے کے ہینڈل کے ساتھ اٹکائی اور دل دل پاکستان گنگناتا باورچی خانے کو چل دیا۔ دوست بھی میری سنت پر تواتر سے عمل پیرا ہوئے تو محفل کچھ رنگ میں آئی۔ احسن نے ممکنہ جیت کی صورت میں جشن کی تیاریوں پر روشنی ڈالی تو مشتاق نے پہلی اور دوسری اننگزکے بیچ میں تاش کی بازیوں کا پروپوزل پیش کیا جسے مولوی متین نے یہ کہہ کہ مسترد کر دیا کہ تاش کی نحوست دوسری اننگز میں ہماری ٹیم کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ اس پر جنید نے شاعرِ مشرق کے اشعار کو ترنم سے پڑھنا شروع کر دیا۔

حقیقت خرافات میں کھو گئی، یہ امت روایات میں کھو گئی۔

اتنے میں میچ کا آغاز ہوا اور اوپنرز میدان میں اترے۔ کمرے میں مکمل خامشی تھی، بس مولوی متین کے لب ہل رہے تھے اور''واتّعزّو منتشا'' کی خود کلامی جاری تھی۔ سچ پوچھیے تو ہم بھی مادری زبان میں اللہ کریم سے آج کی شام عزت ہی کی دعا مانگ رہے تھے۔

جنید نے بہآواز بلند کہا:

'' یااللہ کسی طرح 300 کروا دے، پھر ہماری باولنگ اچھی ہے، ہندوستانی جیت نہ پائیں گے''۔

اِس پر سوائے مولوی متین کے ہم سب نے آ مین کہا۔ اُسکی تو آنکھیں پیشانی پر پہنچ گئیں۔ جنید کی طرف غصبناک آنکھوں سے کچھ دیر گھورا اور پھر بولا:

'' مردود، بد عقیدہ جاہل، ، کیا بکواس کی تو نے؟ یعنی بیٹنگ اللہ کروا دے اور باولنگ کے لیے اُسکی ضرورت۔ ۔ ۔ ۔ استغفراللہ، پڑھے لکھے جاہل کہیں کے، میں حیران ہوں تجھ میں کیا دیکھا ہے جامعہ والوں نے جو پروفیسر لگا رکھاہے؟''

اس پر جیند کی ہنسی نکل گئی،۔ جامعہ۔ جامع۔ ع ع۔ ۔ عاں۔ جنید ''ع'' کو مسلسل حلق سے نکالنے کی کوشش کرتا رہا اور سوائے متین کے سبھی دوست ہنس دیے۔

اگلی گیند پر امام الحق صاحب (اوپنر بلے باز) نے دو قدم باہر نکل کر آنکھیں بند کی، بلا گمایا اور مہندرا سنگھ دوھونی کے ہاتھوں وکٹ کے پیچھے آوٹ ہو کر خراماں خراماں ڈریسنگ روم کی طرف چل دیے۔ جسکے ساتھ ہی پٹرول کی تازہ مہک ناقابلِ بیان الفاظ سے برآمد ہونے لگی اور ہر اوور کے بعد بڑھتی گئی، یہاں تک کہ مولوی متین بھی اپنے عمدہ مخارج کیساتھ میدانِ عمل میں اُترے۔ ٹیم حسبِ معمول خس و خاشاک کی طرح بکھر گئی۔ جب پورے اوورز کھیلنا بعید از قیاس ہو گیا تو مجھے منجلی بیٹی کی یاد ستانے لگی۔ چپکے سے باہر نکلا، بیگم کو فون کر کے بچوں کی خیریت معلوم کی، انکل آنٹی کا حال پوچھا اور بتایا کہ:

'' تم بن گھر کتنا ویران ہے، بے سکون اور خالی خالی۔ گھر کی رونقیں تو بس آپ لوگوں کیساتھ ہیں۔ میں کل دوپہر تک لینے آ جاوں گا''۔

بیگم کہنے لگی:

''گھر میں اکیلے تھے تو ادھر آجاتے، مجھے اندازہ ہوتا کہ آپ اتنا جلدگھر پہنچ جائیں گے تو کچھ کھانا بنا کے آتی۔ خدا جانے آپ نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں؟، فریج میں گاجر کا حلوہ اور کچھ فروٹ پڑے ہیں، کھا لیجیے گا۔ اور سنیے!برتن باورچی خانے میں سنک کے اندر رکھ دیجیے گا اور ہاں سونے سے پہلے باہر کی لا ئٹیں آف کر دیجیے گا۔

''حسن علی بھی آوٹ''، جنید تقریبا ہکلاتے ہوئے پکار اُٹھا۔

میں نے فون بند کیا اور ٹی وی لاؤنج میں آ گیا۔ جنید سیب دانتوں میں پھنسائے اپنے موبائل فون میں مگن تھا اور مولوی متین آلتی پالتی مارے حلوے سے خالی کٹورا چاٹنے میں مشغول۔ مشتاق تاش کے پتوں کو شفل کرتے ہوا بولا:

''اب چونکہ قومی ٹیم نحوست میں خود کفیل ہے، اور دوسری اننگز دیکھنے پر جس کثیر تعداد میں گناہ صغیرہ کا احتمال ہو سکتا ہے اُسکا تقابل چند تاش کی بازیوں سے کرنا سراسر انصاف کے منافی ہے، اگر مولوی صاحب کی متانت گوارہ کرے تو گھی زدہ انگلیوں کو چاٹنا چھوڑیں اور میدانِ عمل میں تشریف لے آ ہیں''۔

اس پر اتفاقِ رائے ہوا، ٹی وی کی آواز بند کی گئی، اور رات گئے تک تاش کی بازیاں چلتی رہیں۔ گاہے بگاہے میچ کے احوال پر بھی تبصرہ ہوتا رہا۔ توقع کے عین مطابق میچ وقت سے پہلے ہی ختم ہو گیا تو حسبِ معمول ہم نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی ماضی کی پرفارمنس پر کچھ دیر بات کر کہ اپنا دل بہلایا اور پھر سب نے ہمیشہ کی طرح آئندہ میچ کبھی نہ دیکھنے کا عہد بھی کیا۔

ابرار خان

ابرار خان ماسٹر آف اکنامکس اور ڈپلومہ ان لیڈرشپ  ڈیلیمپنٹ پروگرام کے حامل ہیں۔ وہ مزاح نگاری، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری، ترجمہ نگاری کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ڈیویلپمنٹ پرو فیشنل ہیں۔