1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عدنان ملک/
  4. حلقہ NA120 کا الیکشن کون جیتے گا؟

حلقہ NA120 کا الیکشن کون جیتے گا؟

لاہور NA120 کا الیکشن کون جیتے گا؟ 17 ستمبر کو ہونے والا یہ ضمنی الیکشن پاکستان کی سیاست میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ تاریخ اور اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو 120 پاکستان مسلم لیگ کی محفوظ نشت تصور کی جا سکتی ہے۔ حالیہ ضمنی الیکشن پر پیشنگوئی سے قبل سیاست سے دلچسپی اور ماضی، حال و مستقبل پر نگاہ رکھنے والوں کیلئے کچھ دلچسپ تاریخی حقائق پیشِ خدمت ہیں۔

1997 الیکشن میں مسلم لیگ ن نے 137 نشستیں حاصل کیں جبکہ پیپلزپارٹی 18 نشستیں جیت پائی۔ 1999 میں مارشل لاء لگنے کے بعد جنرل پرویزمشرف نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں سے امیدوار توڑ کر مسلم لیگ ق کے نام سے ایک پارٹی تشکیل دی۔ چنانچہ 2002 الیکشن میں مسلم لیگ ق 126 نشتوں کے ساتھ اول، پیپلزپارٹی 82 نشستوں کے ساتھ دوم، متحدہ مجلس عمل 63 نشتوں کے ساتھ سوم جبکہ مسلم لیگ ن 19 نشتوں کے ساتھ چہارم رہی۔ الیکشن 2002 کے نتائج تین وجوہات کی بنا پر اہم ہے:

1۔ مسلم لیگ ن 1997 میں اپنی تاریخ کا سب بڑا سکور 137 کرنے کے پانچ سال بعد سب سے کم سکور یعنی 19 نشتوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر آئی۔

2۔ پیپلزپارٹی الیکشن 1997 میں اپنی تاریخ کا سب سے کم 17 سکور کرنے کے بعد دوبارہ 82 نشستیں جیت کر دوسرے نمبر پر آ گئی۔

3۔ پورے پاکستان سے 19 نشستوں کے ساتھ اپنی تاریخ کے بدترین نتائج کے باوجود بھی مسلم لیگ ن کے (اس وقت) نسبتاً غیر معروف امیدوار محمد پرویز ملک NA120 بآسانی جیتنے میں کامیاب ریے۔ مسلم لیگ ن کے پرویز ملک 33741 ووٹ کے ساتھ پہلے، پیپلز پارٹی کے عاطف احمد قریشی 19483 ووٹ لے کر دوسرے اور مسلم لیگ ق کے میاں اشرف 15085 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

لاہور NA120 کا انتخابی پس منظر واضح کرنے کے بعد 17 ستمبر کے ضمنی الیکشن کی اہمیت پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ الیکشن 2013 میں اس نشت پر مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اس حلقے سے 91666 ووٹ لے کر وزیراعظم پاکستان بنے، جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد 52321 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہیں۔ 28 جولائی 2017 کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاکستان سپریم کورٹ کے پانچ رکنی پنچ سے میاں نوازشریف کی نااہلیت کا فیصلہ آنے کے بعد یہ نشت خالی ہوگئی۔ NA120 کا ضمنی الیکشن اسلئے غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے کہ:

1۔ لاہور NA120 کا الیکشن نوازشریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کا عوامی ریویو ہے۔ اگر عوام کی اکثریت پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نوازشریف کو نااہل قرار دینے سے متفق ہے تو مسلم لیگ ن کا ووٹ مارجن کم ہونا چاہیے۔ اگر عوام کی اکثریت نوازشریف سے ہمدردی رکھتی ہے کہ یہ بے لاگ انصاف نہیں ہوا بلکہ نوازشریف کو سیاسی نشانہ بنایا گیا ہے تو مسلم لیگ ن کا ووٹنگ مارجن بڑھنا یا برقرار رہنا چاہیے۔

2۔ لاہور NA120 کا انتخابی معرکہ بیگم کلثوم نوازشریف اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے درمیان نہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریکِ انصاف کے درمیان سے جو دونوں جماعتوں کی سیاسی مقبولیت کے دعوں کی انتخابی حقیقت طے کرے گا۔ الیکشن 2018 کے نتائج کا اندازہ لگانے کیلئے NA120 اور NA4 کے الیکشنز ایک طرح کے litmus test کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

3۔ مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم مریم کے سپرد کر رکھی ہے۔ یہ معرکہ محترمہ مریم نواز کا امتحان ہے جو خود انکا سیاسی مستقبل طے کرے گا۔ پارٹی میں مریم نواز کو پسند کرنے والے کچھ ہیں تو ناپسند کرنے والے بھی کچھ کم نہیں۔ نا تو جناب آصف علی زرداری کی محترم بلاول کو چیرمین نامزدگی اسے مقبول لیڈر بنا سکتی ہے، نا میاں نواز شریف کا مریم کو جانشین بنانا اسے عوامی راہنما بنا سکتا ہے۔ مریم نواز کو اپنا آپ سیاسی عوامی میدان میں ثابت کرنا ہوگا، غلطیوں سے سیکھنا ہوگا، دشمنیاں اور مخالفتیں جھیلنا ہونگی، کارزارِ سیاست کی خاک چھاننی ہوگی، عروج و زوال میں ثابت قدمی دکھانا ہوگی۔ تبھی انکے ناقدین انہیں سیاسی، عوامی اور لیڈرشپ میٹیریل مانیں گے۔

اب تک کی انتخابی مہم میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور عندلیب عباس روزانہ 3 گھنٹے گھر گھر جا رہی ہیں۔ لوگ اچھی طرح ملتے ہیں، ووٹ کا وعدہ بھی کرتے ہیں، مگر رخصت ہوتے ہی مسکراتے ہیں۔ محترم عمران خان صاحب نے بھی قریب ہی جلسہ کیا ہے۔ باہر سے سپورٹر لا کر میلہ سجانے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جلسہ تو اچھا ہو جاتا ہے مگر انتخابی نتائج اتنے اچھے نہیں آتے۔ پرویز ملک اور بیگم شائستہ پرویز کی مدد سے مریم نواز نے لیٹ مگر زوردار مہم شروع کی ہے جس کا رسپانس مل رہا ہے۔ مریم نواز کی الیکشن ٹیم یاسمین راشد سے ذیادہ موثر ثابت ہو رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریکِ انصاف لاہور کے پاس عمران خان اور علیم خان کے بعد کوئی امیدوار ایسا ہے جو مسلم لیگ ن کے بالمقابل انتخابی معرکے میں جان ڈال سکے تو وہ ڈاکٹر یاسمین راشد ہی ہیں۔

بدقسمتی سے حلقے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن تبصرے کے قابل نہیں۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار اور حامد میر کے بھائی فیصل میر کی کمپین نا ہونے کے برابر ہے، سارا زور حیلے بہانے دھونڈنے پر ہے۔ تحریکِ انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد پیپلزپارٹی سے وابستگی کا سیاسی پس منظر رکھتی ہیں اسلئے پیپلزپارٹی کا بیشتر ووٹر انہیں کے ساتھ تحریکِ انصاف کو جا چکا ہے۔ مزید اس حلقے میں جماعت اسلامی کا تقریباً 2 فیصد ووٹ ہے اور حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ بھی مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک کو ہزار دو ہزار ووٹ کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔

Who will win NA 120 Election؟

پاکستان کا ووٹر البتہ خود اچھا خاصا سیاستدان ہے، وعدہ سب سے کرتا ہے، الیکشن والے دن اکیلے کمرے میں مہر کس انتخابی نشان پر لگائے گا اسکا یقین سے کوئی تجزیہ نگار نہیں بتا سکتا۔ تجزیہ کاروں کے اندازے اور رائے عامہ کے سروے کسی حد تک درست ثابت ہوتے ہیں تو کبھی غلط بھی ہو جاتے ہیں۔ گیلپ پاکستان میں کامیاب سیاسی سروے کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ NA120 کا الیکشن کون جیتے گا، اس پر انکے ایک حالیہ سروے جو حلقے کے ووٹروں سے کیا گیا ہے کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔ میرا ذاتی اندازہ گیلپ کے ذیادہ قریب تر ہے۔ لیکن دو مزید اداروں پَلس کنسلٹنٹ اور انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپنین ریسرچ کے سروے کے نتائج بھی شامل ہیں:

Who wil you vote in NA 120 Election؟

Gallup= PMLN 53%۔ PTI 29%

Pulse = PMLN 62%۔ PTI 23%

IPOR = PMLN 55%۔ PTI 26%

26 اکتوبر NA4 پشاور IV پر لاہور کی طرح ایک اور دلچسپ ضمنی الیکشن متوقع ہے۔ یہ نشت پاکستان تحریک انصاف کے گلزار خان کی وفات کے باعث خالی ہوئی ہے۔ حلقے پر ہماری تحقیق و تجزیہ جاری ہے جیسے ہی تحریکِ انصاف کا امیدوار فائنل ہوتا ہے قارئین کو رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن الیکشن 2013 میں دوسرے نمبر پر رہنے والے اپنے امیدوار ناصر خان موسی زئی کو ہی دوبارہ ٹکٹ دے رہی ہے جبکہ تحریکِ انصاف کی قیادت رواں سال ANP سے جوائن کرنے والے ارباب عامر کو ٹکٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جزباتی نعروں کے مارے کارکن البتہ اس بات پر ناراض ہو کر صلاح الدین مومند کے بینر لگائے بیٹھے ہیں جنہیں سمجھانے بجھانے کا ٹاسک صوبائی وزیر شاہ فرمان کو دیا گیا ہے۔