1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عدنان ملک/
  4. پنجاب میں میڈیکل سٹورز کی ہڑتال مسئلہ کیا ہے؟‎

پنجاب میں میڈیکل سٹورز کی ہڑتال مسئلہ کیا ہے؟‎

پنجاب ڈرگ ایکٹ 2017 کے خلاف ادویات فراہم کرنے والے اداروں کی ہڑتال چوتھے روز میں داخل ہوگئی۔ ڈرگ ایکٹ آئے قریب ڈیڑھ برس ہو چلا ہے، فریقین کے پاس کافی وقت تھا معترضہ شقوں پر متبادل تجاویز لا کر بامقصد مزاکرات کرنے کا۔ اک جانب جعلی اور غیر رجسٹرڈ ادویات کی فروخت اک گھمبیر مسئلہ ہے تو دوسری جانب ادویات سے منسلک انڈسٹری کے مسائل پر ہمدردانہ غور و حوض بات چیت کرکے درمیانی حل یا شق وار عملدرآمد کیلئے وقت دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ساری شقوں پر ایکدم عملدرآمد ممکن نہیں تو حکومت اور ایسوسی ایشن مل بیٹھ کر بتدریج عملدرآمد کا روڈ میپ طے کر سکتے ہیں۔

23 جنوری 2017 کو پنجاب اسمبلی نے بالآخر 41 سال پرانے ڈرگ ایکٹ 1976 میں اصلاحات کرکے پنجاب ڈرگ ایکٹ 2017 منظور کیا۔ نئی ترامیم میں جعلی، غیرمعیاری یا غیرلائسنس شدہ ادویات کی تیاری، امپورٹ، ایکسپورٹ یا فروخت پر 5 سال قید، 5 کروڑ جرمانہ اور جائیداد ضبطگی تک کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ نئے قانون کے مطابق میڈیکل سٹور میں ادویات فروخت کرتے ہوئے فارماسسٹ کی موجودگی لازمی ہے۔ مزید برآں ادویات کی ترتیب، ایکسپائری یا محفوظ رکھنے کے طریقہ کی خلاف ورزی پر قید و جرمانے کی پہلے سے موجود معمولی سزاؤں کو بڑھا کر انتہائی سخت کر دیا گیا ہے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچرر اینڈ ڈسٹریبیوٹر ایسوسی ایشن(PPMA)، پنجاب کیمسٹ کونسل (PCC) نے پنجاب ڈرگ ایکٹ 2017 کو مسترد کرتے ہوئے جائنٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دے دی۔ کمیٹی نے لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے نئے ایکٹ کی منسوخی اور پرانے قانون کی بحالی کیلئے حکومت کو 9 مارچ 2018 کی ڈیڈ لائن اور بصورت دیگر غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی دھمکی دی۔ کمیٹی کا موقف ہے کہ اس ایکٹ کے ذریعے پاکستانی میڈیکل معیشت کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ کمیٹی کا یہ بھی الزام ہے کہ حکومت مزاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم سوال قانون پر عملدرآمد کا بھی ہے۔ سابقہ ڈرگ قوانین میں جو سزائیں موجود تھیں، وہ بھی جعلی ادویات کی روک تھام کے بجائے ڈرگ انسپکٹرز کی آمدن کا باعث تھیں۔ نئے ڈرگ ایکٹ میں 5 دن قید کی سزا کو 5 سال کرنے سے کہیں ڈرگ انسپکٹرز کی رشوت کا ریٹ 25 ہزار سے 1 لاکھ نہ ہو جائے اور عوام جو پہلے بھی جعلی ادویات کھا رہے تھے پنجاب ایکٹ 2017 کے بعد بھی وہی کھا کے مرتے رہیں۔

دوسری جانب ڈرگ لائرز ایسوسی ایشن(DLA)، ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن(YPA) اور ڈرگ ریٹیلرز ایسوسی ایشن(DRA) نئے قوانین کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ وزیرِ صحت پنجاب خواجہ عمران نذیر کا کہنا ہے کہ اسوقت جہاں کچھ کالی بھیڑیں صحت عامہ کے اس قانون کی مخالفت کر رہی ہیں وہیں ادویات سے منسلک پروفیشنل فارمسٹ اور کیمسٹ قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں۔

موجود حکومت چاہے جیسی بھی ہے عوامی نمائندوں پر مشتمل ایک منتخب جمہوری حکومت ہے۔ جمہوریت میں ضد، انا اور ہٹ دھرمی نہیں بلکہ پہلا اور آخری مقصد عوامی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔ ملک و قوم پہاڑوں، دریاؤں اور میدانوں سے نہیں بلکہ لوگوں سے ہی بنتے ہیں۔ اگر حکومت کی ترجیح عوام ہیں تو اسے کسی نام نہاد مقتدر انا کو خاطر میں لائے بغیر لچکدار رویئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً بامقصد اور نتیجہ خیز مزاکرات کرنے چاہیں تاکہ اس مسلئے کا حل نکال کر عوام کو جلد از جلد ادویات کی عدم فراہمی کی تکلیف سے نجات دلوائی جائے۔

جائنٹ ایکشن کمیٹی (JAC) سے بھی درخواست ہے کہ ڈیڑھ سال بعد الیکشن کے قریب ہڑتال کی کال احتجاج سے ذیادہ بلیک میلنگ کا تاثر دیتی دکھائی دے رہی ہے۔ جعلی یا غیر معیاری ادویات کی روک تھام کے طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے، قوانین کے غلط استعمال پر چیک اینڈ بیلنس کا میکنزم بنوایا جا سکتا ہے، مگر جعلی اور غیرمعیاری ادویات ایک سنجیدہ مسئلہ ہیں۔ یقیناً آپ خود بھی اپنے بیوی بچوں بیمار عزیز و اقارب کو جعلی یا غیر معیاری ادویات دینا پسند نہیں کریں گے۔ رہ گئی میڈیکل سٹور میں فارماسسٹ کی موجودگی کی شق تو پہلے بھی کیٹیگری رکھنے کی شکل میں پراکسی تو چل ہی رہی تھی، مزاکرات کئے جا سکتے ہیں کہ اتنے فارماسسٹ نہیں ہیں جتنے میڈیکل سٹورز ہیں، چھوٹے گلی محلے کے میڈیکل سٹورز فارماسسٹ کی تنخواہ افورڈ نہیں کر سکتے، تو A اور B کیٹیگری کے فارماسسٹ کے ساتھ C کے ڈپلومہ ہولڈز کو وہاں کام کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا عملدرآمد کیلئے ڈیڈلائن مقرر کرکے اس دوران میڈیکل سٹور مالکان کیلئے ڈپلومہ ٹریننگ پروگرام شروع کروایا جا سکتا ہے۔ بہتر ہوگا، کہ ڈرگ ایکٹ کی یکسر منسوخی کے بجائے ترمیم کیلئے مسائل پر تجاویز کے ساتھ حکومت سے بامقصد مزاکرات کرکے اپنے روزگار اور عوام کی خدمت جاری رکھنے کیلئے راستہ نکالیں۔ خواہ مخواہ کی ہٹ دھرمی ملک، حکومت، عوام اور خود اس شعبے سے وابستہ افراد سمیت کسی کے حق میں نہیں۔ ورنہ حکومتیں تو آتی جاتی رہیں گی مگر پاکستان میں ادویات کا نظام کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔