1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. اگرسانس رک جائے تو

اگرسانس رک جائے تو

گاڑی ایک سو بیس کلو میڑفی گھنٹہ کی رفتار سے اپنی منزل کی طرف بھاگی جا رہی تھی۔ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھاسوچوں کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔ انسان بھی بہت عجیب ہے۔ ، دنیا کا ہر ہنر سیکھ لیتا ہے، پانی کی گہرائیوں میں بھی اترنا سیکھ لیتا ہے، لمبی لمبی چھلانگیں بھی لگا لیتاہے، پہاڑوں کی بلندیوں کو بھی چھو لیتا ہے، پرندوں کی طرح اڑان بھی بھر لیتا ہے، لیکن اسکو ساری زندگی یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ اپنی سوچوں کے سمندر میں کس طرح سے تیرنا ہے، اپنی سوچوں کے سمندر کی گہرائیوں میں کس طرح اترنا ہے، کس طرح سوچوں کی موجوں سے نبردآزما ہونا ہے، کس طرح خیالوں کی اونچی اونچی لہروں میں خود کو غرق ہونے سے بچانا ہے۔ اسی لئے انسان سوچوں کے سمندر میں ہمیشہ غوطے ہی کھاتا رہتا ہے، کبھی ایک سوچ اسکو اپنی طرف بلاتی ہے، کبھی وہ دوسری فکر کی طرف بے اختیار لپکتا چلا جاتا ہے، کبھی کسی خیال کی موجیں اس کو انجانے جزیرے پر لے جاتی ہیں اور کبھی کبھی کچھ تصورات اسکو بے ہنگم دنیا کی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ وہ بھی اس وقت اسی طرح کی کیفیت سے دوچار تھا۔ اسکوبھی نہیں معلوم تھا کہ کس طرح سوچوں کے خطرنا ک سمندر میں تیرنا ہے، کس طرح سے ان جان لیوا موجوں کا مقابلہ کرناہے۔ وہ اردگرد کے تمام مناظر سے بے خبر اپنی دنیا میں گم تھا کہ اچانک دھماکہ دار آواز آئی اور اسکے بعد اسکونہیں معلوم کہ اسکو ساتھ کیا ہوا۔ کچھ دنون بعد جب اسکی آنکھ کھلی تو وہ ہسپتا ل کے بستر پر لیٹا زندگی اور موت کے درمیان کی وادیوں میں بھٹک رہا تھا، اسکو اپنی منزل کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ وہ تو معمول کے مطابق گھر سے کاروباری میٹنگ کے سلسلے میں دوسرے شہر جا رہا تھا، وہ تو راستے میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ کوٹیشن میں کتنا مارجن رکھا جائے تو اس سال کے ٹارگٹ حاصل ہو سکتے ہیں۔ وہ ان سب باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن وہ زندگی کی بے یقینی اور زندگی کی بے ثباتی کے بارے میں کچھ نہیں سوچ رہا تھا، وہ یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ اگر سانس رک جائے تو بڑے سے بڑا کاروبار بھی اس کو بحال نہیں کر سکتا، وہ یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ اگر سانس رک جائے تو بڑے سے بڑے ٹارگٹ بھی لاحاصل ہو جاتےہیں۔ وہ یہ سب کچھ نہیں سوچ رہا تھا شائد اسی لئے یہ صدمہ اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔ بستر مرگ پر کچھ مزید دن گزرانے کے بعد بالاخر وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ اس کے دونوں بیٹے بیرون ملک تھے، ان کی آمد تک اس کی میت کو گھر میں نہیں رکھا جا سکتا تھااور اس کی بیوی کو اس کی میت سے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ اس کی میت کو کندھا دینے والوں میں اسکے وہ چند ملازم شامل تھے جن کی عزت نفس کو وہ ہر روز پامال کیاکرتا تھا۔ قبرستان میں اس کے میں جنازے اس کے وہ کاروباری دوست شامل تھے جو قبرستان میں بھی دوست کو بھول کر اپنے کاروبار کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ زندگی میں اس کے اردگرد لوگ گدھ کی طرح منڈلاتے رہتے تھے، لیکن آج اس کے جنازے میں چالیس متقی لوگ تو بہت دور، کل چالیس بھی موجود نہیں تھے۔ وہ زندگی سے موت کی وادیو ں میں اتر گیاتھا لیکن اس کے پیچھے کس کو فرق پڑا؟ یہ کیسی زندگی ہے، سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، وہ کاروبار کے سلسلے میں دوسرے شہر جا رہا تھا، اس کی صحت بھی بالکل ٹھیک تھی، اس کے خاندان میں بھی سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، پھر اچانک سانس کے رک جانے سے سب کچھ رک گیا اور وہ موت کی وادیوں کی طرف چل نکلا۔ انسان یہ زندگی کس کے لئے گزار رہاہوتا ہے، اس زندگی میں چلتی سانسیں کس کے لئے لے رہا ہوتا ہے ؟ یہ تو طے ہے کہ وہ یہ زندگی اپنے لئے تو نہیں گزار رہا ہوتا اور نہ ہی یہ ساری سعی یہ بھاگ ڈوراسکی اپنی ذات کے لئے ہوتی ہے۔ مگر پھر اتنی جدوجہد کس کے لئے؟ کیا اسکے دنیا سے چلے جانے کے بعد کسی کو کچھ فرق پڑ تاہے؟ انسان اپنی ساری زندگی میں کتنی سانسیں اپنے لئے لے پاتا ہے؟ ساری زندگی کتنا اپنے لئے جی پاتا ہے؟ ساری زندگی اپنے سکون کے لئے کتنی مشقت کر پاتا ہے؟ کیا خود کے لئے کچھ چاہیے بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟ اگر ہم تھورا سا غور کریں تو ہمیں محسوس ہو گا کہ ہم اپنی ساری زندگی دوسروں کے لئے جیتے ہیں، ہمارے سارے عمل بھی دوسروں کے لئے ہوتے ہیں، دنیا والوں کی زبانوں سے اپنے بارے میں اچھے کلمات کی امید میں ہم اپنے خوابوں کو، اپنے اطمینان کو، اپنے پیاروں کی خوشیوں کو بڑی خوشی سے ذبج کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہمیں واقعی ہی ان سب چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے پیچھے ہم بھاگے چلے جاتے ہیں؟۔ ایک بار جب اسکا پیارا کتا مرا تھا تو اس کے گھر ہزاروں لوگ آئے تھے اس لئے نہیں کہ ان لوگوں کو اس کے کتے سے بہت پیار تھا بلکہ محض اس لئے کہ اس کے سامنے اپنی حاضری لگوائی جا سکے، اس کے لئے اپنے خلوص اور محبت پر مہر لگوائی جا سکے۔ لیکن آج چند لوگوں کے سوا اس کے جنازے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کے جنازے میں اسکی وہ اولاد بھی شامل نہیں تھی جس کے لئےیہ دنیا کی غلام گردش میں گم تھا، اس کے جنازے میں وہ برادری والے بھی شامل نہیں تھے جن پر رعب ڈالنے کے لئے وہ اپنی استطاعت سے زیادہ دکھاوا کرتا تھا، اس کے جنازے میں وہ دوست احباب بھی شامل نہیں تھے جن کی خاطر وہ اللہ کی نافرمانی کیا کرتا تھا۔ یہ سب اس لئے اس کے جنازے میں شریک نہیں تھے کیونکہ اس کی سانس رک چکی تھی اور جب سانس رک جائے تو سب کچھ رک جاتا ہے۔