1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. اپنا اپنا مدار

اپنا اپنا مدار

میں اپنی بات شروع کرنے سے پہلے دو کہانیاں سنانا چاہتا ہوں۔

دو مختلف کمپنیاں ہیں، مثال کے طور پر ایک کمپنی اے ہے اور دوسری کمپنی بی۔ کنیرح اے کمپنی بی کے مقابلے میں بہت چھوٹی کمپنی ہے اسکا اندازہ آپ ان کے paid-up capital سے لگائیں، کمپنی اے کا پیڈ اپ کیپیٹل تقریباً آٹھ لاکھ امریکی ڈالر اور کمپنی بی کا پیڈ اپ کیپیٹل تقریباً ڈھائی ارب امریکی ڈالر ہے۔ پاکستان میں ایک لڑکے کو کمپنی اے سے جاب کی آفر آئی، اس نے آفر قبول کر لی۔ ویزہ پراسس شروع ہو گیا، جو لوگ اس پراسس سے گزرے ہیں ان کو معلوم ہو گا کہ یہ کتنا مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے، اس لڑکے نے اپنی طرف سے سارا پراسس مکمل کر کے کیس جمع کروا دیا۔ وہ باقائدگی کے ساتھ ہر کچھ دنوں بعد معلوم کرنے جاتا کہ پراسس کہا ں تک پہنچا۔ کبھی اس کو بتایا جاتا کہ ملکی حالات کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے کبھی اس کو بتایا جاتا کہ پالیسی بدل رہی ہے اس لئے مزید انتظار کرنا پڑے گا کبھی کچھ اور کچھی کچھ۔ اسی طرح انتظار کرتے کرتے ایک سال گزر گیا۔ بالاخر اس کو اسکے سارے ڈاکیومنٹ اس کی ڈگریاں اور پیسے سب کچھ واپس دے دیا گیا اور اس کو اشاروں میں بتا دیا گیا کہ اسکے کام کی اب کوئی امید نہیں ہے، حالانکہ کمپنی کی طرف سے جاب لیٹر، ویزہ وٖغیرہ سب کچھ موجود تھا، اس نے پیسے بھی جمع کروا دیے تھے اور ایک سال انتظار کے بھنور میں بھی گھومتا رہا لیکن وہ کمپنی اے میں نہیں جا سکا۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ اسکو کمپنی بی کے نمائندے نے کال کی اور انٹرویو کے بعد اس کو کمپنی اے کی نسبت اچھی تنخواہ پر جاب کی آفر کر دی، یاد رہے کہ اسنے نہ تو کمپنی بی میں اپلائی کیا نہ ہی اس کو اس بات کا وہم و گمان تھا کہ اس کو کمپنی بی سے کال آئے گی، اس کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑا نہ تو کسی قسم کی خواری اٹھانا پڑی نہ ہی کوئی پیسے جمع کرواناپڑے اور ایک ماہ کے اندر اندر وہ کمپنی بی میں بیٹھا کام کر رہا تھا، دنیا کے معاشی حالات دن بدن خراب ہونے کی وجہ سے کمپنی اے نے لوگوں کو نکالنا شروع کر دیا لیکن چونکہ کمپنی بی کا شمار دنیا کی بہترین کمپنیوں میں ہوتا تھا اس لئے اس نے یہ معاشی پریشر برادشت کر لیا۔

اب میں دوسری کہانی کی طرف آتا ہوں۔ ہمارے پروفیسر صاحب بتایا کرتے تھے، وہ ایک دن کالج سے واپس جا رہے تھے، واپسی پر وہ جیسے ہی چوک میں پہنچے ٹریفک سگنل بند ہو گیا۔ انہوں نے کہیں جلدی پہنچنا تھا اس لئے انہیں دکھ ہوا کہ چند لمحے پہلے آجاتا تو سگنل پر نہ کھڑا ہونا پڑتا۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ جیسے ہی انہوں نے سگنل کراس کیا تو چند سو میٹر آگے راولپنڈی کے نادرا آفس کے پاس چوک میں دھماکہ ہو گیا اور انہوں نے چیزوں کو ہوا میں بلند ہوتے دیکھا۔ وہ بتاتے ہیں میں اگر اس وقت اپنی خواہش کو مطابق کچھ دیر پہلے سگنل کراس کر چکا ہوتا تو شاید میں بھی دھماکہ کی زدمیں اکر جہان فانی سے کوچ کر چکا ہوتا۔

جس طرح ہر سیارہ اور ہر سیارے کے چاند اپنے اپنے مدار میں، اپنی اپنی متعین رفتار سے گھوم رہے ہوتے ہیں اور اپنے وقت پر اپنا چکر پورا کر کے اپنی منزل کو پہنچتے ہیں اس طرح دنیا میں ہر انسان اپنے اپنے مدار میں اپنی اپنی رفتار سے گھوم رہا ہوتا ہے اور اس کو اپنا چکر پورا کر کے اپنی منزل تک پہنچنا ہوتاہے۔ انسان چونکہ جلد باز ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ جلدی سے اسکا چکر پورا ہو جا ئے اور وہ مدار کا سفر مکمل کر کے اپنی منزل تک پہنچ جائے لیکن محض اس کی چاہت کے ساتھ اسکی منزل نہیں جڑی ہوتی اسکی چاہت کے علاوہ اللہ کی بھی چاہت ہوتی ہے اور ہمیشہ وہی ہونا ہوتا ہے جس میں اللہ کی چاہت ہوتی ہے۔ اور حقیقت میں انسان کے لئے بہتری بھی اللہ کی چاہت میں ہی ہوتی ہے لیکن اس بات کا اندازہ کچھ دیر کے بعد اس وقت ہوتا ہے جب آنکھوں سے ٖغفلت کا پردہ اٹھتا ہے۔ واصف علی واصف صاحب کہتے ہیں، دکھ کیا ہے؟ انسان کی چاہت اور اللہ کی چاہت کے فرق کا نام دکھ اور غم ہے۔ جب انسان کی چاہت پوری نہیں ہوتی تو وہ غمگین اور دکھی ہو جاتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اس کی چاہت کے مطابق اس کی محنت کا، اس کی مشقت کا پھل مل جائے اور اسی ضمن میں وہ اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ کرتا ہے، حالانکہ ہر کسی کا ہے ہر کسی کو اس کے صحیح وقت پر ہی منزل ملتی ہے۔ اوپر دی گئی کہانیوں کو یا اپنے اردگرد پھیلی ایسی حقیقتوں کو ہر وقت اپنے ذہن کے پہلے حصے میں رکھیں اور ہر کام میں اپنے حصہ کی محنت ڈال کر اس بات کا اطمینان رکھیں کہ ہم سے بہتر ہمارے بارے میں ٖفیصلے کرنے والی اللہ کی ذات ہر وقت موجود ہے۔ اس طرح زندگی کی بہت ساری تلخیوں سے نجات مل جائے گی۔