1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد نسیم رنزوریار
  4. گونگے کا خطاب اور بہروں کی تالیاں

گونگے کا خطاب اور بہروں کی تالیاں

قومیں جب خواب دیکھنے سے قاصر ہو جائیں، جب ان کے کان صرف وہی سنیں جو سنانا مقصود ہو، جب آنکھیں صرف وہی دیکھیں جو دکھایا جائے اور زبانوں پر تالے ہوں تو پھر ایک گونگا شخص بھی خطاب کرتا ہے اور بہرے تالیاں بجاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ ایک المیہ ہے جس میں حکمران ہمیشہ قوم کو سبز باغ دکھاتے رہے، عوام کو امیدوں کی فصیلوں میں قید کرکے ان سے ووٹ لیتے رہے اور پھر ان کی رائے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اقتدار کے نشے میں بدمست ہوتے رہے۔

ہم نے جمہوریت کے نام پر وہ آمر دیکھے جو پارلیمان میں بیٹھ کر عوام کی گردن پر چھری چلاتے رہے اور ہم نے آمریت کے سائے میں وہ جمہوری چہرے دیکھے جو تاجِ جمہوریت پہن کر لوگوں کو بھوک، افلاس اور بے روزگاری کی چکی میں پیستے رہے۔ آج بھی پاکستان کے گلی کوچوں میں بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں نہیں، کچرے کے تھیلے ہیں۔ نوجوانوں کے خواب کسی یونیورسٹی کی دیواروں سے نہیں ٹکرائے بلکہ بیرون ملک ویزوں کی لائنوں میں دم توڑ گئے۔ ہمارے بزرگ پنشن کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور حکمرانوں کے بچے بیرونِ ملک کے محلات میں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ جو کل تک عام آدمی تھے، آج اقتدار میں آکر سرمایہ داروں کے گماشتے بن گئے۔

قوم کو بتایا گیا تھا کہ وہ تبدیلی لائیں گے، مگر تبدیلی صرف وزیروں کی گاڑیوں اور پروٹوکول میں آئی۔ کبھی کسی نے سادگی کا راگ الاپا اور عوام سے قربانی مانگی، لیکن خود ایوانِ وزیرِاعظم میں کھانے کے بل لاکھوں کے ہوتے رہے۔ کبھی کسی نے کرپشن ختم کرنے کا وعدہ کیا، مگر انہی کے ارد گرد وہی پرانے چہرے جمع ہو گئے جن کے خلاف نعرے لگائے گئے تھے۔ عوام کے بچوں کو تعلیم، صحت، روزگار، انصاف دینے کے دعوے ہوئے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ایک غریب مریض ہسپتال کے فرش پر تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔ استاد کو تنخواہ وقت پر نہیں ملتی، کسان اپنی فصل جلانے پر مجبور ہے اور مزدور کی مزدوری اشیاء کی قیمتیں کھا جاتی ہیں۔ سیاستدان صرف الیکشن جیتنے کے فنکار ہیں، خدمت ان کا شعبہ نہیں۔ ان کی تقریریں صرف زبان کی مشق ہیں، نہ ان میں درد ہوتا ہے نہ اخلاص۔ قوم بار بار انہی چہروں کو آزما رہی ہے، جو چہرے صرف اقتدار کا چسکہ چاہتے ہیں۔

قوم کے سامنے اب ایک ایسی فلم چلائی جاتی ہے جس میں سب اداکار ہیں، مگر کہانی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی، مگر اس جنگ نے قوم کو ایک مستقل خوف میں جکڑ دیا۔ ہم نے مہنگائی کے خلاف علم بلند کیا، مگر ہر دور میں اشیاء خور و نوش کی قیمتیں عوام کی گردن تک پہنچ گئیں۔ بجلی آتی ہے تو بل ہزاروں کا، پانی نہیں آتا مگر ٹیکس پھر بھی دینا ہے، گیس نایاب مگر اس کی قیمت عالمی معیار سے بھی بلند۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ نظام کس کے لیے ہے؟

عوام صرف ہجوم بن چکے ہیں، جنہیں صرف جلسوں میں دکھایا جاتا ہے اور الیکشن کے دن استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا جو سچ بولنے کا واحد ذریعہ تھا، وہ بھی طاقتوروں کی جیب میں چلا گیا۔ اینکرز بکے، صحافت دفن ہوگئی اور تجزیے صرف ایجنڈے بن گئے۔ قوم سوال نہ کرے، یہ کلچر بنا دیا گیا۔ جو سوال کرتا ہے وہ غدار، ملک دشمن، ایجنٹ کہلاتا ہے۔ یہ کونسا انصاف ہے کہ ایک طرف لاہور، کراچی، اسلام آباد میں محلات آباد ہیں اور دوسری طرف تھر میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں؟ کہاں ہے وہ نیا پاکستان؟ کہاں ہے وہ ریاستِ مدینہ؟ کہاں ہے وہ انقلاب جو نوجوانوں کی زبان پر تھا؟

سب خواب تھے، سب کہانیاں تھیں، سب اسکرپٹ تھا۔ اسکرپٹ کے کردار بدلتے گئے، مگر سکرین وہی رہی، تماشائی وہی رہے اور تالیوں کی گونج کبھی کم نہ ہوئی۔ یہ تالیاں حقیقت نہیں تھیں، یہ جبر کے تحت بجائی گئیں۔ اس ملک کے تعلیمی ادارے زوال کا شکار، ہسپتالوں میں دوائیں غائب، عدالتوں میں انصاف تاخیر کا شکار، پولیس کرپٹ، بیوروکریسی مغرور اور حکمران بے حس۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے دشمن خود اس کے اپنے نظام کے رکھوالے ہیں؟ جنہوں نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کیں، جنہوں نے عوام کے اعتماد سے کھیل کھیلا اور آج بھی وہی چہرے مسکرا کر کہتے ہیں: "ہم عوام کے خادم ہیں"۔

خدمت کی یہ تعریف ہم نے پہلی بار دیکھی کہ خادم ارب پتی ہوگیا اور مخدوم بھوکا رہ گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ووٹ عزت رکھتا ہے، مگر ووٹر کی کوئی عزت نہیں۔ ووٹ لینے کے بعد کوئی واپس اس گلی میں نہیں آتا جہاں سے وہ منتخب ہوا۔ قوم آج بھی اندھیرے میں ہے، ان کے ہاتھوں میں موبائل تو ہے، لیکن دل میں امید کی روشنی نہیں۔ وہ صرف سوشل میڈیا پر آواز اٹھاتے ہیں، مگر عملی میدان میں ان کے پاس کوئی قیادت نہیں، کوئی نظریہ نہیں، کوئی سمت نہیں۔

قوموں کی تقدیر تعلیم سے بدلتی ہے اور ہمارے ہاں تعلیمی بجٹ ہر سال کم ہوتا ہے۔ نصاب وہی پرانا، استاد غیر تربیت یافتہ اور خواب سب سے مہنگے۔ جس ملک میں کتاب مہنگی ہو اور گولی سستی، وہ ملک کیا ترقی کرے گا؟ جہاں یونیورسٹی کے طالبعلم کو سیاسی رنگ میں دیکھا جائے، وہاں علم پنپ نہیں سکتا۔ جہاں قلم کو زبان بندی کا ہتھیار بنا دیا جائے، وہاں روشنیاں خود بخود بجھ جایا کرتی ہیں۔ یہ ملک اس وقت گونگوں کے خطاب سے چل رہا ہے اور بہرے تالیاں بجا رہے ہیں۔ یہ تماشہ کب تک چلے گا؟ یہ سوال اب ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی عقل و شعور کو جگائیں، خوابوں سے نکل کر حقیقت کو تسلیم کریں اور ان کرداروں کو بے نقاب کریں جنہوں نے ہماری تقدیر سے کھیل کھیلا۔

پاکستان کو گونگے خطیبوں سے نہیں، بولتے سچ اور سننے والے ضمیروں سے ضرورت ہے۔ ہمیں ان تالیاں بجانے والوں سے نجات چاہیے جو سچ کے مقابلے میں خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ نہ خطیب رہیں گے نہ سامع، صرف تاریخ کی دھول ہوگی اور اس میں دفن ایک قوم، جو بول نہیں سکی، سن نہیں سکی اور بدل نہیں سکی۔