مائی ڈئیر سن۔۔
یادداشت اب کمزور ہونے لگی ہے۔ کچھ باتیں بہرحال نہیں بھولتیں۔ ان میں سے ایک رازی ہسپتال چاندنی چوک راولپنڈی کی وہ رات اور پھر اگلا دن ہے۔
میں UNHCR کے پراجیکٹ سے ایمرجنسی میں پشاور چھوڑ کر واپس آیا اور ہم ہسپتال چل دیے۔ رات شدید بارش جاری تھی۔ میں رازی ہسپتال کی دائیں جانب والی عمارت میں موجود انتظار گاہ جو دن میں کلینک بھی ہوتا تھا، میں بیٹھ گیا۔ انتظار تھا کہ بائیں جانب والے ہسپتال سے ابھی خوشخبری آئے گی۔
بارش تیز ہونے لگی۔ اسی اثناء میں رات کے بارہ بج گئے۔ تاریخ بدل گئی۔ اب۔۔ 29 جولائی 2009 شروع ہوچکی تھی۔
میٹرنٹی ہاسپٹل سے کوئی خبر تو کیا ہی آتی، ہسپتال والے غالباً میری موجودگی سے لاعلم کلینک والی عمارت کو باہر سے قفل لگا کر۔۔ یہ جا وہ جا۔۔
میں وہاں رات بھر اکیلا بیٹھا بارش کی آواز سنتا رہا۔۔
اگلی دوپہر کو تم، میرے پہلے بیٹے ارحم۔۔ اس دنیا میں آئے اور کچھ دیر بعد میں نے پہلی بار تمہیں گود میں لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس سے پہلے اتنے چھوٹے یعنی گھنٹے ڈیڑھ پہلے دنیا میں آئے بچے کو گود میں لینے کا نہ کوئی تجربہ تھا، نہ کوئی معلومات کہ کیسے گود میں لیتے ہیں اور نہ اس بابت کوئی احساسات۔۔
یہ احساس بہت ہی نیا تھا۔ بہت ہی زیادہ نیا۔
اور بہت ہی خوبصورت۔ نیا، اجنبی مگر خوبصورت۔
29 جولائی 2009 کو میں ابھی چوبیس سال کا بھی نہیں ہوا تھا۔ چوبیس کا ہونے میں بھی ابھی چوبیس روز باقی تھے۔
And there I was, just got introduced to the fatherhood، holding my first born, YOU!
تم، چھوٹے سے انسان اتنے سرخ تھے کہ تمہیں دیکھتے ہی نام احمر رکھنے کا خیال آیا۔ تاہم اگلے چند ہی روز میں احساس ہوا کہ یہاں سے آگے فیصلے "ہم" نے مل کر کرنے ہیں۔
سو "ہم" دونوں نے "مل" کر تمہارا نام ارحم بن معاذ رکھا۔
اس دن سے تم گھر کے برابر جزو ہو۔ ہاں اسی دن بلکہ اسی وقت سے جب میں نے تمہیں پہلی بار گود میں لیا، تم ہمارے گھر میں برابری کی بنیادوں پر حصہ دار ہو۔ بعد میں بس اس گھر میں حصے بڑھتے بڑھتے کل پانچ ہوگئے۔ پانچ برابر حصے۔ میرے اور تمہاری اماں کے بعد تم سب سے پرانے حصے دار۔ اس دن سے آگے جو چھوٹے بڑے فیصلے ہم نے مل کر کیے اس میں تمہارا کردار یوں رہا کہ ان کی وجہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح تم ہی تھے۔
تم نے بولنا شروع کیا تو تم میرے دوست بنے۔ مجھے زندگی سے جو کچھ چاہیے تھا یہ ان میں سرفہرست خواہشات میں سے ایک رہا کہ میں تمہیں ایک دوستانہ ماحول دوں۔ سمجھ لو یہ میری شدید ترین خواہش تھی کہ میں تمہیں وہ جذبات اور احساسات دوں جو میں خود حاصل کرنا چاہتا تھا مگر کسی وجہ سے نہ کر پایا۔ سمجھ لو یہ میری اتنی بڑی خواہش تھی کہ آج تک مجھے تمہاری اور تمہاری بہن کی زبان سے اپنے لیے "تم" سننا اچھا لگتا ہے۔ اس کی شروعات بھی تم ہی سے ہوئی۔
میں اور شاید مجھ سے زیادہ تمہاری ماں تمہیں لے کر overprotective رہے۔ تم چھوٹے سے تھے تو تمہاری زندگی کا پہلا اور تمہارے دادا کی زندگی کا آخری گھر تعمیر ہو رہا تھا۔ یہ گھر کامیابی سے بنانے کی ذمہ داری میری تھی۔ میں تمہیں لے کر زیر تعمیر گھر میں چلا جاتا جہاں تمہاری پوری کوشش ہوتی کہ کچی زمین پر موجود مٹی سے کھیلو۔ میں تمہیں روک لیتا کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے۔ تب وہاں موجود کاریگر مجھے سمجھاتے کہ تمہیں آزاد چھوڑنا ضروری ہے۔ میں نے البتہ کبھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑا۔ خوف بہت بعد کی بات ہے، مجھے بس یہ قبول نہیں تھا کہ تم تکلیف سے گزرو۔
لیکن پھر۔۔ تم بڑے ہونے لگے۔
اور ہمیں ایک ایک کرکے تمہاری عمر کو درکار آزادی دیتے خوشی محسوس ہونے لگی۔ ہاں۔۔ تمہاری ماں میری نسبت آج بھی تمہارے لیے protective ہے مگر اتنا عرصہ اکٹھے گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تمہاری ماں وہ بیلنس ہے جو ہماری فیملی کے پہیے نازک موڑ پر سلپ ہونے سے بچائے رکھتی ہے، اس وقت بھی جب ہم خطرناک مقام سے خطرناک رفتار کے ساتھ گزر رہے ہوتے ہیں۔
اور تم جانتے ہو ایسا ہی ہے۔۔ ایسا ہوتا رہا ہے۔ ہمیں اچھا نہیں لگتا مگر وقت نے بتایا کہ اس کی جانب سے مجھے اور تمہیں جب بھی بریک لگی، وہ ہمارے لئے بہتر ثابت ہوئی۔
تم غلطیاں کرو گے جیسے تمہارے ابا نے، پھر اس کے ابا نے اور پھر ان کے ابا نے کیں۔ اس سے پہلے کی تاریخ نہ مجھے یاد ہے نہ میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ یاد رکھنا کہ یہ نسلی تفاخر کی راہ چلنے کا مؤجب ہو سکتا ہے۔ تم غلطیاں کرو گے اور ضرور کرنا، کہ غلطیوں کے بغیر کچھ سیکھنا فقط کہانیوں تک ممکن ہے۔ بس یہ خیال کرنا کہ غلطی کرتے ہوئے کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ میں تمیں ایک عرصے سے یہ بات سکھا رہا ہوں کہ کسی پر ہاتھ اٹھانے میں کبھی پہل مت کرو اور کسی اور کی پہل کا جواب دینا ہو تو خصیوں پر لات سے کم مت دینا۔ میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ تم یسوع مسیح بنو۔ تم غلطیاں کرو گے مگر جب تک کسی کا حق نہیں مارو گے ہم تمہارے ساتھ ہی کھڑے نظر آئیں گے۔
تمہاری زندگی میں اب صنف مخالف کے ظہور کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ان کے ساتھ وہی رویہ رکھنا جو انسانی ہو اور جو تم اپنے، اپنی بہن اور اپنے بھائی کے ساتھ باقی انسانوں کا دیکھنا چاہتے ہو۔ اس سے بہتر جتنا ہو سکے، بدتر کبھی نہیں۔ اس ضمن میں باقی جتنا کچھ میں تمہیں بتا چکا ہوں وہ بس یاد رکھنے کی کوشش کرنا۔ آگے اللہ کی مرضی۔
اللہ نے تمہیں ہمارے جسم کا حصہ بنا کر پیدا نہیں کیا، لہذا تم پر کوئی بار نہیں کہ ہمارے ساتھ زندگی بھر اپنی مرضی کے خلاف چپکے رہو۔ ہمیں تم سے کوئی خدمت نہیں چاہیے۔ بس وہی اور اتنی ہی محبت چاہیے جتنی تم ہم سے حاصل کرو، وہ بھی اگر تم دے سکو۔ نہ دے سکو تو کوئی بات نہیں۔ تم مگر دو گے۔ انشاءاللہ ضرور دو گے۔
تمہیں میوزک پسند ہے اور مجھے یہ حقیقت پسند ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ موسیقی دل سخت ہونے سے روکتی ہے، احساسات کو جامد ہونے سے روکتی ہے۔ ہمیں تو موقع نہ ملا۔ تم ضرور کوئی ایک انسڑومنٹ پر ملکہ حاصل کرنا۔ کم از کم اتنا کہ تمہیں کوئی گانا بتایا جائے تو پلے کر سکو۔ کم سے کم میرے لیے کر سکو۔
تم سمیت تمہارے بہن بھائیوں کا سینس آف ہیومر وہی ہے جو میرا ہے۔ اسے ایسے ہی رکھنا۔ آواز بلند کرنے کرنے کی بجائے طنز بلند کرنا سیکھنا۔ اختلاف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک جس میں اختلاف کی گنجائش ہو، جیسے تمہیں سیڈان پسند ہے اور مجھے ایس یو وی۔ اختلاف کی دوسری قسم وہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔ جیسے۔۔ ہمیں گاڑیوں میں سیڈان یا ایس یو وی پر اختلاف ہے مگر الیکٹرک کار بے کار ہوتی ہے اس پر ہمارے بیچ اختلاف کی گنجائش ہی نہیں۔ کبھی کسی کو پہلی قسم کے اختلاف پر مت جانے دینا۔ اس دنیا میں بندے کے پتر سخت نایاب ہیں۔ ذاتیات پر اترے تو کرش کو بھی بلاک کرنے میں زیادہ سوچنا مت۔ جتنی سپیس دو گے اگلے اس سے زیادہ سے کم پر کبھی نہیں مانیں گے۔
تم جانتے ہو ان میں سے زیادہ تر باتیں میں تم سے کر چکا ہوں، کرتا رہتا ہوں۔ آج مگر خاص دن ہے۔ بہت خاص دن۔
آج تمہاری سولہویں سالگرہ ہے۔ آج کے دن دل کی باتیں زبان پر لانے کا دن ہے۔ چونکہ اس وقت تم سو رہے ہو اور سالگرہ سیلبریٹ کرنے کا ہم پانچوں کو کوئی خبط نہیں لہذا لفظ لکھ کر چھوڑ رہا ہوں۔
یہ تمہارا راستہ تلاش کرتے خود تم تک پہنچ جائیں گے۔
تمہارا ابا۔۔
معاذ بن محمود