1. ہوم/
  2. آپ بیتی/
  3. معاذ بن محمود/
  4. بس دو محرومیاں

بس دو محرومیاں

سال تھا سنہ 2000، معاذ صاحب میٹرک شدھ کلاسی نمبرز سے پاس کر کے باہر نکلے۔ پشاور ویسے تو آج بھی کوئی ماڈرن شہر نہیں، سنہ 2000 میں تو بالکل بھی ماڈرن نہیں تھا۔ ایف جی بوائز پبلک ہائی سکول مطلب فیڈرل بورڈ سے نمبر اٹھانا بذات خود ایک چیلنج تھا۔ قبول ہوا نہ ہوا، بس نمبر لینے تھے۔ لے لیے، اتنے کہ جہاں ہاتھ رکھو داخلہ مل جاتا۔

اس دور کے پشاور میں فقط دو ہی کالج تھے۔ اسلامیہ کالج پشاور جس کا کسی کرنسی نوٹ پر عکس آج بھی دستیاب ہے۔ دوسرا ایڈورڈز کالج پشاور، اپنے بچپن کے ماحول اور اپنی طبع کے درمیان تفریق پر بات پھر کبھی سہی، بس اتنا جان رکھیے کہ اسلامیہ کالج پشاور میں پہنے جانے والی شیروانی پسند نہیں تھی۔ حالانکہ اسلامیہ کا میرٹ ایڈورڈز سے اوپر ہوتا تھا۔

مزید برآں، سفید پوش کے لیے اسلامیہ مفت ہوتا تھا۔ جبکہ ایڈورڈز کالج کی فیس ہوتی تھی۔ کم از کم اس دور میں اشرافیہ والی فیس۔ کسی وقت ابا مرحوم کو کہہ دیا تھا کہ کالج جاؤں گا تو ایڈورڈز، ابا نے کہا بیٹا تو ایڈورڈز کالج پشاور کے میرٹ پر پورا اتر، کالج بھیجنا میرا ذمہ، ستم ظریفی دیکھیے، جب کالج میں داخلے کا وقت آیا تو ابا مرحوم کے حالات سخت تھے۔

باپ بہرحال باپ ہوتا ہے۔ میری فیس بک فرینڈ لسٹ میں میری اماں بھی موجود ہیں۔ پڑھیں گی یہ پوسٹ کچھ آنسو بہائیں گی۔ کچھ میں بہاؤں گا، اور یوں ہم اپنی یادوں کا نظرانہ محمود الحسن صدیقی مرحوم کے لیے پیش کریں گے، اور بھلا ممکن بھی ہو تو کیا؟ تو بات چل رہی تھی سخت حالات کی، کالج میں داخلہ درکار تھا۔ اور اس کے لیے زیادہ نہیں، سنہ2000 میں فقط پندرہ ہزار روپے بطور داخلہ فیس دستیاب کرنی تھی۔

اپنا سپنا ایڈورڈز کالج تھا۔ دوسرے نمبر کا پرائیویٹ کالج، پہلا نمبر مفت والے اسلامیہ کا میرٹ اس کا بھی تھا۔ لیکن مجال ہے، جو ابا نے ایک بار بھی کہا ہو کہ بیٹا اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لے لو کہ وہاں کوئی فیس نہیں۔ آپ جانتے ہیں ابا نے پیسے کیسے ارینج کیے؟ ہمارا ایک ہی گھر تھا۔ مدینہ کالونی پشاور میں، سات مرلے پر مبنی اپنا گھر، مجھے وہ وقت بھولتا نہیں، کبھی نہیں بھولے گا۔

والد مرحوم نے صرف پندرہ ہزار ایڈورڈز کالج پشاور کی داخلہ فیس کے لیے سات لاکھ پندرہ ہزار کا گھر فروخت کر ڈالا، اور اس سے بھی تکلیف دہ بات، جس کو گھر فروخت کیا، ہم اسی کے پاس بطور کرائے دار رہنے لگے۔ میں ابھی امیتابھ بچن کی فلم Goodbye دیکھ رہا تھا۔ لمبی کہانی مختصر جنریشن گیپ پر بنی فلم ہے۔ کہانی کے بس ایک دو موڑ دل چیر گئے۔

ایک منظر کچھ ایسا تھا کہ بچے کو والدین سائیکل پر سکول چھوڑتے ہیں۔ اور اگلے دن فوت ہو جاتے ہیں۔ بچہ اس کے بعد ہر صبح سکول پہنچ کر والدین کو سائیکل پر ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔ یہ تو خیر شدید ٹریجڈی ہے، لیکن ایک ٹریجڈی اپنی سنائی دیتے ہیں۔ لڑکپن میں انسان کافی حد تک بے حس ہوتا ہے، میں بھی تھا، میری اولاد بھی ہوگی۔ اچھا اولاد کی بات آئی تو مجھے لگا بے حس نہیں کہنا چاہئے۔

شاید ناسمجھ کہنا بہتر ہو، اور یہی فرق ہے اولاد اور والدین میں خیر، اوپر ایڈورڈز کالج میں داخلے کے وقت جو حالات چل رہے تھے وہ بتا چکا۔ اس کے باوجود، میری حد تک بے حسی دیکھیے یا ناسمجھی دیکھئے کہ میں نے ایڈورڈز کالج پشاور کے علاوہ کسی کالج کا ایڈمیشن فارم تک نہ لیا۔ ایڈورڈز کا فارم لیا وہی پر کیا وہی جمع کیا۔ ہوتے ہوتے ایک دن داخلے کی میرٹ لسٹ لگی۔

بھئی ایڈورڈز کالج پشاور میں آج بھی انگریزی گورا پڑھاتا ہے شاید۔ اب نہ بھی پڑھاتا ہو، تب تو پڑھاتا تھا، تو میرٹ لسٹ لگی، یہ وہ پہلا دن تھا۔ جب ابا نے میرے کالج میں قدم رکھا، بڑی امید سے ہم نے میرٹ لسٹ دیکھی اپنا نام ڈھونڈا، لیکن نام تو تھا ہی نہیں، یہ کیا ہوا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرے ساتھ سکول کے دوست آج بھی موجود ہیں۔ جو جانتے ہیں سکول میں شاید میرا دوسرا نمبر تھا۔ کچھ غلط ہے۔

انتظامیہ کا رخ کیا۔ وہاں ایک مسیحی بھائی موجود تھے۔ ابا کو ٹینشن کے باعث دل میں درد شروع ہوچکا تھا۔ یاد رہے، اس وقت تک والد مرحوم کے دو بائی پاس ہوچکے تھے۔ مسیحی بھائی کو بتایا۔ انہوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چیک کرنا شروع کیا۔ کوئی پینتالیس منٹ تحقیق کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ کالج سے غلطی ہوئی ہے۔ میں میرٹ لسٹ میں ہوں تاہم کسی وجہ سے نام نہیں پرنٹ ہو سکا۔

بہرحال ابا کو یقین دہانی کروائی گئی کہ آپ کا سپوت میرٹ لسٹ میں سرفہرست ہے۔ اس دن ابا کو تکلیف ہوئی، جو نہیں ہونی چاہئے تھی، پر ہوئی، اس تکلیف کا مداوا تو شاید میں نہ کر پاؤں کبھی لیکن ایک تسلی ضرور ہے۔ میرٹ لسٹ کے بعد کالج میں انٹرویو ہونا تھا۔ اس دور میں پرنسپل Cannon Huw Thomas تھے۔ تھامس کیا بندہ تھا، اسے گوگل کر لیں، شاید آپ کو اندازہ ہو جائے۔

گارڈین کی خبر پہلے کمنٹ میں، شاید کچھ اندازہ کرنے میں مددگار ثابت ہو، انٹرویو میں ابا اور میں تھامس کے سامنے تھے۔ مجھے انگریزی پر کوئی فخر نہیں، لیکن اس وقت سچ کہوں گا تھوڑا بہت ہوا تھا۔ کیوں؟ کیونکہ تھامس نے ابا مرحوم کو دیکھ کر کہا۔

Mr. Mahmood, do you know your son is the only candidate who has higher score in English compared to that of Urdu? And his Urdu scores are not bad either.

مجھے واقعی یاد نہیں ابا کا جواب کیا تھا۔ شاید مسکرا دیے تھے۔ میں نے ابا کی بہت نافرمانیاں کی ہیں تاہم اس وقت جو میرے باپ کے جذبات ہوں گے، وہ آج بطور تین بچوں کے باپ میرا خیال ہے، ناقابل بیان ضرور ہوں گے۔ اس سرگزشت میں کوئی سبق نہیں۔ بس دل ہوا آج کچھ دل کی بات کہنے کا سو کہہ ڈالی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں ابا مرحوم کے جسد خاکی کو خاک کے سپرد کر رہا تھا۔

اور عین اسی وقت دو لوگ آپس میں بحث کر رہے تھے کہ اس دوران استعمال ہونے والی چٹائی کو پھینک دیا جائے یا کسی غریب کو دے دیا جائے۔ وہ وقت بہت برا تھا، لیکن، وہ وقت اس سے زیادہ برا ہو سکتا تھا۔ اگر مرحوم صدیقی صاحب ہمارے بچپن میں شدید سردی کے باوجود ہمیں بائیک پر بٹھا کر سکول چھوڑ کر نہ آیا کرتے۔ زندگی بیشک ایک دم مست چل رہی ہو، بیٹھے بٹھائے محرومیاں یاد آ ہی جاتی ہیں۔

ایک محرومی باپ کا نہ ہونا ہے۔ دوسری محرومی، باپ کو اس کی اولاد کے کارناموں کو نہ بتا پانا ہے۔ بہرحال جو رب کی مرضی۔