1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. ڈائری کا ایک صفحہ

ڈائری کا ایک صفحہ

ہر موسم کے ساتھ بہت سی یادیں، بہت سے چہرے، بہت سے واقعات جڑے ہوتے ہیں۔ ہر موسم اپنے دامن میں کئی خوشیاں اور کئی اداسیاں سمیٹے چلا آتا ہے۔ سردیوں کاموسم بھی اپنی جھولی میں بہت کچھ سمیٹ کر، بہت سارے سامان کے ساتھ آ جاتا ہے۔ سردیوں میں کبھی کبھی یخ بستہ ہوائیں وجودمیں داخل ہوکر بھونچا ل برپا کردیتیں ہیں اور کبھی بڑے سے بڑے طوفان کو خاموش کر دیتیں ہیں، کبھی کانوں سے ٹکرا کر سرگوشیاں کرنے لگتیں ہیں اور کبھی آوازیں باز گشت کی طرح اندر ہی اندر گونجتی رہتی ہیں، کبھی ٹھنڈی راتوں میں بھیگی تنہائی کی نمی پلکوں پہ محسوس ہونے لگتی ہے اور کبھی خشک اور سوکھی رات گزر جاتی ہے، کبھی صبح کی گھاس پر پڑا کورادیکھ کرآنسووں کا گمان ہوتا ہے اورکبھی درختوں سے گرتے پیلے پتے اداس کر دیتے ہیں، کبھی ان لوگوں کی محبت سر اٹھانے لگتی ہے جن کے بغیر جینے کا تصور سانسیں بوجھل کر دیا کرتا تھا اور کبھی وہ لوگ خیالوں کا حصہ بن جاتے ہیں جو کبھی ہمارا حصہ ہوا کرتے تھے، کبھی چاند نی راتوں میں چاند پر نظریں ٹھہر جاتیں ہیں اور کبھی گلشن کا کاروبار چلنا رک جاتا ہے، کبھی دھند کا لباس پہنے کسی کے بھولے عہدو پیماں چلے آتے ہیں اورکبھی اپنی بساط سے دور گئے لوگ خیالوں میں آجاتے ہیں، کبھی دسمبر بھی جلنے لگتا ہےاورکبھی بادل شرارت میں کسی کا چہرہ بن جاتے ہیں، کبھی خود پسندی کے دلدل جکڑ لیتے ہیں اور کبھی اپنا وجود اپنے کندھوں پر بوجھ بن جاتاہے۔

دسمبر کی بارش بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ کھلی کھڑکی سے بارش کی پھواریں یادوں کے ساتھ اندر آکر کپکپی طاری کر دیتیں ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ باہر کی بارش نے وجود کو بھیگو دیا یا اندر کی بارش نے۔ کمرے کے ساتھ ساتھ وجود کی کھلی کھڑکی دیکھ کر بھانت بھانت کے لوگ، بھانت بھانت کے خیالات، بھانت بھانت کی یادیں قطار در قطار خراما خراماچلی آتی ہیں اوربیٹھے بیٹھے کہاں سے کہاں لے جاتیں ہیں۔ سردیوں کی دھوپ میں بڑی حدت اور کشش ہوتی ہے سردیوں کی دھوپ بھی کسی کا لمس محسوس ہوتی ہے۔ شام کا بجھا سورج اداسی کے سمندر میں ڈوب کر سارے جہاں کو اداس کر دیتا ہے، شام کا اداسی کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ ہے آسمان پر پھیلی سرخی اور ہوا میں پھیلی خنکی ہر کسی کو اداسی کے وسیع سمندر میں دھکیل دیتیں ہیں۔ رات کو چلتی ٹھنڈی ہوائیں سٹرکوں اور بازاروں کو بے رونق کر جاتیں ہیں۔

کافی عرصہ پہلے پی ٹی وی پر بچوں کا ایک ڈرامہ "سٹاپ واچ" چلا کرتا تھا۔ اس میں ایک بچے کو ایسا ریموٹ ملتا ہے جس پر بنے بٹن کو دبانے سے اردگرد سب کچھ منجمد ہو جاتاہے سب کچھ رک جاتا ہے اس ریموٹ میں ایک اور فنگشن یہ بھی تھا کہ فاورڈ کا بٹن دبا کر دیکھ لیا جائے کہ اگلے چند لمحوں میں کیا ہونے والا ہے اور اس کے مطابق تیاری کر کے اس مشکل کو اپنے لئے آسان بنا لیا جائے۔ ویسے تو یہ محض فکشن ہے لیکن یہ فکشن یہ خیال بھی بڑے ارمان پیدا کر جاتا ہے، اکثر سوچا کرتا ہوں اگر میرے پاس بھی ایسا ریموٹ ہوتا تو میں بھی اپنی زندگی کے بہت ساری واقعات کو پہلے سے دیکھ کر محتاط ہو جاتا، بہت ساری چہروں کو پہلے سے دیکھ کر دوبارہ دیکھنے کی غلطی کبھی نہ کرتا، بہت سارے وعدوں کا انجام پہلے سے دیکھ کر ان کو پر کبھی بھروسہ نہ کرتا، بہت سارے پھولوں میں چھپے کانٹوں کو پہلے سے دیکھ کر ان سے زخم نہ کھاتا، بہت سارے خوابوں کی حقیقت پہلے سے دیکھ کر ان خوابوں کو زندگی کا حصہ نہ بناتا۔ کاش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔