1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد نسیم رنزوریار
  4. چمن کے حل طلب مسائل

چمن کے حل طلب مسائل

قارئینِ کرام! چمن جو کہ بلوچستان کا ایک اہم اور سرحدی شہر ہے، آج کل بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ یہ شہر جو کبھی تجارتی اور عوامی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا، آج بدحالی، ناانصافی اور بنیادی سہولیات کی محرومی کی علامت بن چکا ہے۔ چمن کے عوام روز بہ روز مایوسی، بے بسی اور ناامیدی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو نظر انداز کیا گیا بلکہ ہر شعبے میں سیاسی، معاشی اور سماجی نااہلی کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔

بارڈر کی بندش نے جہاں تجارت کو تباہ کیا ہے، وہیں ہزاروں لوگ روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔ چمن کا بارڈر، جو مقامی معیشت کی شہ رگ تھا، اب سیاسی فیصلوں اور غیر شفاف پالیسیوں کی نذر ہو چکا ہے۔ نوجوان مزدور، محنت کش اور چھوٹے تاجر سب کے سب شدید متاثر ہو چکے ہیں۔ کاروبار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ روزی روٹی کا کوئی متبادل ذریعہ میسر نہیں اور روز بروز بڑھتی بے روزگاری نے عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔ جسکی وجہ سے غریب خودسوزی کرتے ہیں مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے۔

روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ عوام کی قوتِ خرید ختم ہو چکی ہے۔ آٹے، چینی، دودھ، دوائی، سب کچھ عام انسان کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے۔ سرکاری سطح پر کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جا رہا اور غریبوں کی سننے والا کوئی نہیں۔ بجلی اور گیس جیسی سہولیات یا تو دستیاب ہی نہیں، یا اتنی ناقص ہیں کہ عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ چمن میں میرٹ کا تصور ناپید ہو چکا ہے۔ نوکریاں سفارش، رشوت اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر دی جا رہی ہیں۔ تعلیم یافتہ اور اہل نوجوان دربدر ہیں، جبکہ نااہل افراد بااثر لوگوں کی پشت پناہی سے عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ ناانصافی ایک نسل کی محنت کو مٹی میں ملانے کے مترادف ہے۔

نوجوانوں میں احساسِ محرومی اور غصہ بڑھتا جا رہا ہے، جو کہ مستقبل میں مزید بگاڑ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ سیاسی مخالفت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوامی فلاح کا ہر منصوبہ متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ مفاد عامہ کے بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ عوام سیاسی قیادت سے مایوس ہو چکے ہیں، کیونکہ وہ وعدے تو بہت کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوتا۔

شہر کی ترقی کے خواب اب صرف جلسوں اور پوسٹروں کی زینت بن چکے ہیں۔ چمن کے سرکاری اسپتال بدترین حالت میں ہیں۔ دوائیں نایاب ہیں، سہولیات کا فقدان ہے اور کئی ڈاکٹرز جو مسلسل ڈیوٹی نہیں دیتی ہے غریب مریض علاج کے لئے ترس رہے ہیں، لیکن سننے والا کوئی نہیں۔ تعلیم کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے عملاً تباہ ہو چکے ہیں۔ اساتذہ کی کمی، غیر معیاری نصاب اور سہولیات کا فقدان چمن کے بچوں کے مستقبل کو تاریک کر رہا ہے۔

ضلع چمن کے کئی مقامات پر عوامی احتجاج نے اس بدحالی کی شدت کو اجاگر کیا ہے۔ ایک طرف بارڈر بندش کے خلاف مظاہرے اور مسلسل احتجاج ہو رہے ہیں، دوسری طرف نوجوانوں نے نوکریوں میں میرٹ کے خلاف اور بے روزگاری کی وجہ سے آواز بلند کی ہے اور تیسری جانب عوام نے بنیادی سہولیات کی کمی ٹرانسپورٹ اڈوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ یہ احتجاج چمن کے عوام کی زندہ ضمیری کا ثبوت ہیں، لیکن افسوس کہ حکام بالا نے تاحال کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا۔

پسند و ناپسند کے اس نظام نے انصاف کا جنازہ نکال دیا ہے۔ جو عوام کے قریب، مخلص اور باصلاحیت افراد تھے، وہ آج سائیڈ لائن پر ہیں اور صرف چہیتے لوگ مراعات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف انتظامی معاملات کو کمزور کر رہا ہے بلکہ عوام کے دلوں میں ریاست سے بے اعتمادی بھی پیدا کر رہا ہے۔

آخر میں عاجزانہ گزارش ہے کہ چمن جیسے حساس اور اہم شہر کے مسائل پر فوری توجہ دی جائے۔ بارڈر کھولا جائے، روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں، مہنگائی کنٹرول کی جائے، میرٹ کو یقینی بنایا جائے، صحت و تعلیم کی سہولیات بہتر بنائی جائیں اور عوام کے جائز احتجاج کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ یہی اقدامات چمن کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں، ورنہ محرومیوں کا یہ سفر نہ صرف چمن بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک نتائج لا سکتا ہے۔