1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. ہماری رائے

ہماری رائے

یہ دو مختلف بادشاہوں کی کہانیاں ہیں۔ کہا جاتا ہے کسی جگہ کا ایک بادشاہ تھا، وہ انتہائی نیک، پرہیزگار، خداترس اور رحم دل تھا۔ اس کی رعایا اس سے بہت خوش تھی وہ اپنی رعایا کے سکون اور ان کی خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہتا تھا۔ اس کی مملکت میں سب خوشحال تھے سب بادشاہ کو بہت دعائیں دیا کرتے تھے۔ بادشاہ جتنا اپنی رعایا کے لئے نرم تھا اتنا ہی مجرموں کے لئے سخت بھی تھا اور اسی وجہ سے اس کی مملکت میں جرائم بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے دینی فرائض کو بھی مکمل ایمانداری اور خلوص کے ساتھ ادا کیا کرتا تھا۔ غرض یہ کہ وہ ایک فرشتہ صفت انسان اور نہایت رحم دل بادشاہ تھا۔ جب اس بادشاہ کا آخری وقت آیا تو اس نے خواہش ظاہر کی کہ اس کو شمال کے علاقے کے ایک باغ کا پھل لا کر کھلایا جائے اس کی آخری خواہش تھی کہ وہ مرنے سے پہلے وہ پھل کھا کر مرے، لیکن پھل آنے سے پہلے موت کا فرشتہ آگیا اور اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ جب اس کی رعایا کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے مختلف باتیں کرنا شروع کر دیں، کچھ کہنے لگے کہ بادشاہ ہمارے سامنے نیک بنتا تھا لیکن حقیقت میں وہ منافق تھا، اگر وہ سچ میں نیک ہوتا تو اللہ تعالی اس کی آخری خواہش پوری کر دیتا، کچھ کہنے لگے بادشاہ کے فلاں معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس کی آخری خواہش پوری نہیں کی اسی طرح لوگ مختلف مفروضوں پر بات کرنے لگے۔

یہ دوسری جگہ کے بادشاہ کا ذکر ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی سفاک بادشاہ تھا، اپنی رعایا پر طرح طرح کے مظالم ڈھایا کرتا تھا، اس کی مملکت میں غربت اور نا انصافی بہت زیادہ تھی۔ وہ جاہل اور بددیانت لوگوں کو وزارت سونپ دیا کرتا تھا اور وہ وزیر اپنی بساط کے مطابق "ہاتھ صاف" کیا کر تے تھے اس بادشاہ کی مملکت میں جرائم بہت زیادہ اور انصاف نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی مملکت میں بے شمار لوگ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے۔ وہ بادشاہ کردار کے حوالے سے بھی انتہائی پشتی میں تھا۔ ہر طرح کی اخلاقی برائی میں مبتلا تھا۔ جب اس بادشاہ کا آخری وقت آیا تو اس نے بہت دور کے ایک دریا کی مچھلی کھانے کی خواہش ظاہر کی، اس کی حالت کی وجہ سےکسی کو امید نہیں تھی کہ مچھلی آنے تک بادشاہ کو زندگی کی مہلت مل جائے گی لیکن سب کی امیدوں کے برعکس بادشاہ اپنی آخری خواہش پوری ہونے تک زندہ رہا۔ اس کی موت کے بعد اسی مظلوم رعایا نے بھی اس کے بارے میں مختلف باتیں کرنا شروع کردیں، کچھ کہنے لگے کہہ بادشاہ کے اللہ کے ساتھ معاملات بہت اچھے تھے جس کہ وجہ سے اللہ تعالی نے اس کو آخری خواہش پوری ہونے تک مہلت دی رکھی، کچھ کہنے لگے اس نیک ولی اللہ کا مزار بنا کر اس سے اپنی منت مرادیں مانی جاہیں کیونکہ بہت نیک اور باکرداربادشاہ تھا، کچھ کہنے لگے بادشاہ یقیناً کچھ ایسا عمل ضرور کرتا ہو گا جو اللہ کی بارگاہ میں بہت پسندیدہ ہوگا۔ دونوں کی موت کے بعد یہ معاملہ اللہ تعالی کے پاس گیا، فرشتوں نے اللہ تعالی سے اس کی حکمت دریافت کی، اللہ تعالی سے پوچھا کہ ایساکیوں ہوا اس نیک بادشاہ کی آخری خواہش پوری نہیں ہوئی اور سرکش وگنہگار کی سرکشی اور نافرمانی کے باوجود اس کی آخری خواہش پوری کر دی، اللہ رب العزت نے فرمایا، نیک بادشاہ نے زندگی میں کچھ گناہ کئے تھے میں نے ان گناہوں کی سزا اس کو دنیامیں ہی دے دی تاکہ وہ جب میرے پاس آئے تو گناہوں سے مکمل پاک صاف ہو، اور دوسرے بادشاہ نے ایک نیکی کی تھی جس کا صلہ اسکو دنیا میں ہی اس کی آخری خواہش پوری کر کے دے دیا۔

ہماری لوگوں کے بارے میں رائے، ان کے بارے میں ہمارا خیال ہماری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اچھے لوگ برائی میں بھی اچھائی اور برے لوگ اچھائی میں بھی برائی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہم لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے کسی کے ایک فیصلے کی وجہ سے کسی کے منہ سے نکلے ایک لفظ کی وجہ سے ہم بہت جلدی کسی کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں، لوگوں کی موت کے دن کے وقت کی وجہ سے یا کسی کی اذیت ناک موت کی وجہ سے ہم فوراً اس کے پرہیزگار ہونے یا اس کے سرکش ہونے کا فتوی دے دیتے ہیں ذرا سوچیں کیایہ صحیح ہے؟ کیا ہم اس بات سے اللہ کے فیصلوں میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کرتے؟ اللہ اور بندے کے درمیان آنے کی کوشش نہیں کرتے؟۔ کسی کے ایمان کا، کسی کے مسلمان ہونے کا معاملہ اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے اس میں کسی دوسرے کو داخل ہونے کا حق کس نے دے دیاہے ؟۔

ہمیں ہمیشہ اپنی رائے قائم کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ دل کے معاملات کا علم صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات کو ہے اس کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔ ہمیں کسی پر کفر کا فتوی لگاتے ہوئے یہ خیا ل رکھنا چاہیے کہ جس کوہم کافر کہ رہے ہیں وہ ان لوگوں میں سے تو نہیں جن کا یک عمل اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا گیا ہو اور صرف اسی ایک عمل کی وجہ سے اللہ نے اس کا نام اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں ڈال دیا ہو۔ آج سے ہی ایک فیصلہ کریں، ایک مضبوط ارادہ کریں کہ لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لیں گے بلکہ میں سمجھتا ہوں آپ کو لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اپنے گریبان کو ہمیشہ صاف رکھیں، اپنے معاملات ٹھیک رکھیں آپ نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اس لئے جب بھی کسی کے بارے میں کوئی برا خیال آئے یا کسی کے بارےمیں بری رائے قائم کر رہے ہوں تو اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنے معالات کو دیکھ لیں مجھے امید ہے باقی آپ باقی سب کچھ بھول کر اپنی فکر میں لگ جاہیں گے۔