1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. کیا اسکو محبت تھی؟

کیا اسکو محبت تھی؟

وہ سچی اور پاکیزہ محبت کرنے کا دعوے دار تھا۔ کبھی کبھی اس کے رویے اور اسکی باتوں سے اس کے دعووں کی صداقت کا اندازہ بھی ہوتا تھا۔ لیکن محبت باتوں اور دعووں سے بہت آگے کی چیز ہے۔ میں اکثر سوچا کرتا، کیا اسکو معلوم تھا کہ جن احساسات کو، جن جذبوں کو وہ محبت سمجھ رہا ہے، وہ محبت کے پاکیزہ جذبے ہی ہیں؟ کیا اسکو معلوم تھا کہ اسکی تڑپ محض جسم کی تڑپ نہیں بلکہ روح کی تڑپ ہے؟ کیا اسکو معلوم تھا کہ اسکی تر آنکھیں ہجر کا نتیجہ ہیں؟ کیا اسکو معلوم تھا کہ محبت وصال کے مرحلے پر ختم نہیں ہوا کرتی؟ کیا اسکو محبت کے بارے میں کچھ بھی معلوم تھا؟۔ وہ سمجھتا تھا کہ اسکو یہ سب معلوم ہے۔ اسکو معلوم ہے کہ یہ احساسات محبت کے حسین جذبوں کی کوکھ سے نکلے ہیں، اسکو معلوم تھا کہ یہ تڑپ جسم کی تڑپ نہیں بلکہ روح کی تڑپ ہے، اسکو معلوم تھا کہ اسکی آنکھوں سے نکلے آنسووں میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہے، اسکو معلوم تھا کہ محبت وصال کے دروازے پر ختم نہیں ہوتی بلکہ وصال محبت کا نقطہ آغاز ہوا کرتاہے، وہ سمجھتا تھا کہ اسکو محبت کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے۔ لیکن اسکو یہ معلوم نہیں تھا کہ کچھ لوگ منٹو کے افسانے "بانجھ" کی طرح محبت کے بانجھ ہوا کرتے ہیں۔ وہ نہ تو محبت کو جنم دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی محبت کو گود لے سکتے ہیں۔ وہ صرف محبت کی خواہش میں سربستہ رہتے ہیں۔ وہ بھی ایسا ہی تھا۔ ایک طرف تو وہ کسی اورسے محبت کا دعویٰ کرتا تھا اور دوسری طرف وہ ان لوگوں کو رسواکرتا تھا جو اس سے محبت کرتے تھے۔ وہ اپنی ماں کی محبت کو دھتکارا کرتا تھا، وہ اپنے باپ کی شفقت کو فراموش کیا کرتا تھا، وہ اپنے خونی رشتوں کا بے دردی سے خون کیاکرتا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو فطرتاً انسان "چاہنے" سے "چاہے جانے" کے احساس سے زیادہ محبت کرتا ہے، حقیقت میں "چاہنے" سے "چاہے جانے" کا احساس زیادہ خوبصورت اور لطیف ہوا کرتا ہیں۔ کیونکہ ہر انسان میں چھوٹا سا فرعون ضرور موجود ہوتاہے جو خود کو خدا سمجھتا رہتا ہےاوراس خدا بننے کی خواہش کی موجودگی "چاہے جانے" کے احساس کو جنم دیتی ہے۔ وہ بھی "چاہنے" سے "چاہے جانے" کے سفر میں بھٹک رہا تھا۔

انسان اللہ تعالی کی بہت نفیس اور خوبصورت مخلوق ہے۔ میرے خیال میں انسان کی اسی نفاست کی وجہ سے محبت اور خوبصورت جذبے اس کے وجود میں پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ جس طرح انسانی جسم میں خون بنتا رہتا ہے اور اضافی خون وائیٹ بلڈسیل کی صورت اختیار کر لیتا ہے اسی طرح محبت بھی انسان کے اندر بڑھتی رہتی ہے اس محبت کو باہر نکلنے کا راستہ چاہیے ہوتا ہے۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہم اپنی اس محبت کو وہاں ضائع کرتے رہتے ہیں جہاں اس کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی، جہاں اس محبت کی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ ہم اپنی پاکیزہ محبت کو اپنے والدین پر نچاور کرنے کی بجائے، اپنے خونی رشتوں پر قربان کرنے کی بجائے گندے اور غلیظ رشتوں کی نظر کرتے رہتے ہیں۔ اس نے بھی یہی کیا تھا۔ اس نے اپنی محبت کے دریا کا رخ اس طرف موڑ دیا تھا جہاں ریت ہی ریت تھی، جہاں سورج کی تپش اسکو جلارہی تھی۔ پھر جس دن اس کی آنکھ کھلی اس دن ان رشتوں کی آنکھ بند ہو چکی تھی جو اس کے لئے سراپا محبت تھے، جن کے محبت کے دریا ہمیشہ اسی کی طرف بہتے تھے۔ لیکن آج وہ سارے دریا خشک ہو چکے تھے وہ بانجھ تھا جو کبھی محبت نہیں دے سکتا تھا اور جو محبت اسکو ملی تھی وہ اسکو بھی گود نہیں لے سکا تھا۔ اسی لئے آج وہ عبرت کی تصویر بنا ہوا اپنی خالی چھولی میں محبت کی بھیک مانگتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ہمارے اردگرد ہمارے والدین، ہمارے بہن بھائیوں کی صورت میں بہت خوبصورت رشتے موجود ہوتے ہیں، جن کی محبت کا محورصرف اور صرف ہم ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کی محبت ہمیں وافر مقدارمیں اور کسی تکلیف کے بغیر آسانی سے مل رہی ہوتی ہے اس لئے ہمیں کبھی ان کی قدر کا احساس نہیں ہوتا۔ ہم اپنی محبت کو باہر کے لوگوں پر لٹاتے رہتے ہیں، ان لوگوں کو اپنی محبت کے قیمتی احساسات دیتے رہتے ہیں جن کا ساتھ محض چند لمحوں کے لئے ہوتا ہے۔ میری تمام لوگوں بالخصوص نوجوانوں سے گزارش ہے اپنی محبت کو باہر کے غلیظ رشتوں میں پھینکے کی بجائے اسکو اپنے والدین کو دیں، اپنے خونی رشتوں کو دیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی آپ کے ساتھ رہنا ہوتا ہے، ہر حال میں آپ کا ساتھ دینا ہوتاہے۔ ان رشتوں کی قدر کریں اس سے پہلے کے یہ دریا خشک ہو جائیں اور ہم محبت کی پیاس میں سسکتے ایڑھیا ں رگڑتے رہ جائیں۔