1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. نفع والا علم

نفع والا علم

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، یہ ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں، ہر مسئلےمیں بہترین رہنمائی فرماتاہے۔ اگر آپ تھورا سا مطالعہ کریں تو حیران رہ جائیں گے کہ زندگی کے ہر موقع کے لئے، زندگی کے ہر مسئلے کے لئے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ہمیں دعائیں سکھائی ہیں۔ جو ہمیں حفاظتی حصار میں لئے رکھتی ہیں، ہمیں مصیبت سے بچاتی ہیں، ہمیں غلط راستے پر جانے سے روکتی ہیں اور ہماری مسلسل رہنمائی کرتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ہمیں صبح کے ازکار میں ایک بہت خوبصورت دعا سکھائی ہے جس کا مطلب ہے۔

“اے اللہ! بے شک میں آپ سے مانگتا ہوں نفع دینے والا علم، پاکیزہ رزق اور قبولیت والا عمل”۔

میں نے اس بات پر بہت غور کیا کہ نفع والا علم کیا ہوتا ہے اور ہم کن علوم کو “نفع والا علم” میں شمار کر سکتے ہیں اور کن علوم کو اس لسٹ سے باہر نکال سکتے ہیں اور نفع والا علم کے تعین کے بعد وہ علم ہمیں کس طرح نفع دے سکتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ میں ادب اور تاریخ کا معمولی سا طالب علم ہوں، اس سمندر کے کنارے پر ابھی تیرنا سیکھ رہا ہوں اور ابھی بہت سارے مراحل طے کرنا باقی ہیں اس لئے میرا خیال اور میری رائے میں غلطی کی سو فیصد گنجائش موجود ہو سکتی ہے۔ لہذا کوئی بھی پڑھنے والا میری رائے سے مکمل اختلاف کر سکتا ہے مجھے اس بات سے انتہائی خوشی محسو س ہوتی ہے کہ اگر کوئی میری خامیوں اور میرے غلط نٖظریوں کی نشاندہی کرتا رہے۔

کچھ دن پہلے ایک ناول میں فارسی کا بہت خوبصورت شعر نظروں سے گزرا۔ کچھ باتیں، کچھ شعر، کچھ فقرے یونہی ہماری یاداشت کا حصہ بن جاتے ہیں ان کے لئے نہ تو ہمیں کسی قسم کی سعی کرنا پڑتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کے تردد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ شعر بھی اسی طرح دماغ کی دیواروں کے ساتھ جڑکر یاداشت کا حصہ بن گیا۔

علم را برتن از مارے بود

علم را بر من یارے بود

(علم اگر ظاہر تک رہے تو سانپ بن جاتا ہے اور اگر علم وجود کے اندر اتر جائے تو دوست بن جاتا ہے۔ )

بات اگے بڑھانے سے پہلے میں اشفاق احمد کی ایک پروفیسر کے ساتھ گفتگو کا حوالہ پیش کر رہا ہوں۔ جس سے اس بات کا ایک اور رخ ہمارے سامنے آئے گا۔ کہتے ہیں۔

"جب میں نے جور جی کے اس بیان پر تعجب کا اظہار کیا تو اس نے میرے قریب ہو کر کہا۔ "ان لوگوں کو لکھنا پڑھنا تو نہیں آئے گا لیکن یہ پڑھے لکھے لوگوں جیسے آداب ضرور سیکھ لیں گے۔ ہر قسم کی معلومات اکٹھی کر لیں گے اور سائنسی موضوعات پر بلا تکان گفتگو کر سکیں گے۔ ۔ علم ہوتاہی کیا ہے؟"۔ ۔ میں کافی دیر اس فقرے کے مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ جب وہ اپنے تمباکو کی نئی پھنکی چبانے لگا تو میں نے پوچھا۔ "سینور جورجی علم کیا ہوتا ہے؟"۔ کہنے لگا۔ " لو حد ہوگئی۔ کمال ہے بھئی ایک پروفیسر مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ علم کیا ہوتا ہے۔ یہ تو بچے بچے کو معلوم ہے پروفیسر! کہ علم گفتگو کا نام ہے، جس کو گفتگو آگئی، اچھی اور رواں گفتگو آگئی، بلا جھجک اور بے تکان بولنا آگیا وہ صاحب علم ہے"۔ پھر اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور میری کلائی پکڑ کر بولا۔ " کبھی وکیلوں کو عدالت میں دیکھا ہے؟ فلموں کے سین میں سٹیج پر۔ ۔ ۔ کلاس روم میں، بس جو کچھ بول رہے ہوتے ہیں، وہ علم ہوتا ہے"۔

سب سے پہلے ہمیں اس بات کا تعین کرنا ہے کہ کون سا علم نفع دینے والا ہے اور کون سا علم نفع دینے والا نہیں ہے۔ خود سے سوال کریں کہ کیا کارڈز کھیلنا سیکھنا نفع والا علم ہے؟۔ ۔ یا سنوکر کھیلنے کے رولز کے بارے میں جاننا نفع والا علم ہے؟۔ ۔ یا نیشنل جیوگرافی پر گھنٹوں چلتی ڈاکیومنڑیرزجو صرف یہ سیکھاتی ہیں کہ جنگل، صحرا یا ویرانے میں کس طرح زندہ رہنا ہے یہ نفع والا علم ہے؟۔ ۔ یا نفع والا علم یہ ہے کہ جسم کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ روحانی تقاضوں کو پورا کیا جائے؟۔ ۔ یا دینی علم نفع دینے والا علم ہے؟۔ ۔ کیا انسانی تاریخ کا مطالعہ نفع دینے والا علم ہے؟۔ ۔ یا انسانی نفسیات کی باریکیوں کو سمجھ کر اپنی اور لوگوں کی پریشانیوں کو کم کرنا نفع والا علم ہے؟۔ نفع والے علم کے تعین کے بعد ہمیں اس بات کی طرف آنا ہے کہ یہ علم ہمیں صحیح معنوںمیں کسی طرح نفع دے سکتا ہے؟ یا کس طرح یہ ہماری زندگیوں میں آسانی لا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لئے میں تصویر کے ایک اور رخ کی طرف آتا ہوں، شائد اس سے ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں آسانی ہو جائے۔

اگر اوپر دیے گئے شعر پر غور کریں تو نفع کے حوالے سے علم کے دو بنیادی رخ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ علم جو ظاہری ہوتا ہے، جو عمل کی چھانٹی سے نہیں گزرا ہوتا، ایساعلم سانپ کی ماند ہوتا ہے، ایسا علم زندگی کے کندھوں پر بوجھ بنا رہتا ہے۔ جبکہ اگر وہی علم عمل کی چھانٹی سے گزر کر وجود میں داخل ہو جائے تو دوست بن جاتا ہے، زندگی کے سارے بوجھ ختم کر دیتا ہے۔ ظاہری علم کی مثال بحر مردار کی طرح ہے جس کی سطح پر انسان نعش کی طرح تیرتا رہتا ہے، علم کا یہ سمندر اسکو قبول ہی نہیں کرتا۔ اس انسان کو سمندر کے اندر کی دنیا سے کبھی بھی اشنائی ہی نہیں ہوتی، اسے کبھی بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اندر کی دنیا کی قدر و قیمت کیا ہے، اندر کے موتی اور جواہرات کی کیسی چمک اور کیسی خوبصورت روشنی ہے۔ اس نفع والے علم کو ہم نفع والے علم کی فہرست سے باہر کر سکتے ہیں کیونکہ بظاہر تو یہ نفع والا علم ہے لیکن اس کو ہم نے محض اس لئے حاصل کیا ہوتا ہے تاکہ ہم اچھی گفتگو کر کے لوگوں کو متاثر کو سکیں نہ کہ اس کے حقیقی مقصد کے لئے اس کو حاصل کیا ہوتا ہے۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ علم جب عمل میں تبدیل ہو کر وجود میں اترتا ہے تو ہی یہ نفع والا علم بنتا ہے۔ نفع دینے والا علم پتھر کی طرح ہوتا ہے جو علم کے سمندر کی گہرائی میں اتر جاتا ہے، جس کو سمندر اپنے اندر جذب کر لیتاہے۔ مختصر یہ کہ جو علم اپکے اندر اتر کر اپکو اللہ سے قریب کر دے یا جو علم آپ کے وجود میں اتر کر اپکا دوست بن جائے یا جو علم آپ کے اندر اتر کر مثبت لہریں پیدا کرے یا جو علم آپ کے اندر اتر کر اپکو انسانیت کی معراج تک پہنچا دے یا جو علم اپکے اندر اتر کر اپکو خدمت خلق کے جذبے سے آشنا کر دے وہ نفع والا علم ہے اور جو علم اپکے اندر نہ اتر سکے، جو علم اپکے وجود کی کھڑکیوں سے اپکے اندر داخل نہ ہو سکے وہ علم نفع دینے والا علم ہونے کے باوجود اپکے لئے نفع بخش نہیں ہوتا، بلکہ ایسا علم سانپ کی ماند ہوتاہے۔ سب سے پہلے اس بات کا تعین کریں کہ کون کون سے علوم ایسے ہیں جن کو ہم اس فہرست میں شامل کر سکتے ہیں اس نے بعد ان علوم کےحصول کو ممکن کریں اور اس کے بعد انہی حاصل کردہ علوم کو عمل کی بھٹی میں پکا کر اپنی ذات کا حصہ بنا لیں، اپنے وجود کے اندر داخل کر لیں تب ہی آپکو پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی سکھائی ہوئی دعا میں پوشیدہ حکمت کا اندازہ ہو سکے گا۔