1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. زیرو سے زیرو تک

زیرو سے زیرو تک

وہ آج بھی پریشانی کی چادر میں لپٹاکمرے میں داخل ہوا۔ دکھ، تکلیف اور یاس کے قطرے اس کے وجود سے ایسے بہہ رہےتھے جیسے بارش میں بھیگے شخص کے کپڑوں سے پانی کے قطرے ٹپ ٹپ کرتے رہتے ہیں۔ ایم ڈی نے اس کو کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ کرسی پر بیٹھ کر بھی وہ خیالات کی غلام گردش میں گم تھا۔ کچھ لوگ زندگی کے سفر کو بہت کٹھن بنا لیتے ہیں، زندگی کابوجھ وجود کے ناتواں کندھوں پربرداشت نہیں کر پاتے۔ یہ بھی انہی لوگوں میں سے تھا، اس نے بھی زندگی کواپنے وجود کے کندھوں پر بوجھ بنا لیا تھا، اس نے بھی زندگی کو شاعر کے جبر مسلسل کی مانند کرلیا تھا۔ ایم ڈی نے مسئلہ پوچھا تو بتایا کہ نوکری سے فارغ ہو گیا ہوں، گھر کاواحد کفیل ہوں، گزارا کیسے ہوگا۔ وہ کافی دیر تک اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کرتا رہا۔ ایم ڈی سوٹ میں ملبوس ایک بابا تھا۔ جو خلق خدا کی داد رسی پر مامور تھا۔ ایم ڈی نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اس کی بات سنی اور پوچھا تمہاری عمرکتنی ہے؟ اس نے بتایا 35سال۔ ایم ڈی نے کہا۔ کبھی سوچا ہے، کہ یہ 35سال کس طرح سے گزر گئے؟ کبھی سوچا ہے، کہ جس رب نے ان 35سالوں میں زرق دیا، وہ آگےکیوں رزق روکےگا؟۔ ایم ڈی نے پوچھا تمہاری اولاد ہے؟ اس نے بتایاایک بیٹا ہے۔ ایم ڈی نے کہا، میری شادی کو 40 سال ہو گئے ہیں میری تنخواہ 5 لاکھ روپے ماہانہ ہے اور میں اگلے ایک سال بعد ریٹائر ہو جاوں گا۔ لیکن میں آج تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ میں گھر کی دہلیز پرقدم رکھتا ہوں تو بچوں کی محبت کا محض تصور وجود میں بھونچال برپا کر دیتا ہے۔ لیکن تمہاری پاس اولاد ہے، تم گھر جاتے ہو اولاد کا چہرہ دیکھتے ہو، اسکو پیار کرتے ہو کیا اس نعمت کو بھول گئے ہو؟ میرے پاس سب کچھ ہے لیکن میرے پاس یہ نعمت نہیں ہے۔ ایم ڈی بولا۔ ایک ڈیل کرتے ہیں تم اپنا بیٹا مجھے دے دو اور ہر ماہ مجھ سے پانچ لاکھ روپے لے لیا کرو۔ وہ بولا سر اپنی اولاد کو کون کسی کو دے سکتاہے۔ ایم ڈی بولا، اسکا مطلب ہے تمہارے پاس پانچ لاکھ روپے ماہانہ سے بڑی نعمت موجود ہے لیکن تم اس کی قدر نہیں کر رہے اور اپنی زبان کو شکوے کی لعنت سے تر رکھتے ہو۔ ایم ڈی آخر میں بولا۔ جس رب نے 35 سال رزق دیا ہے وہ آگے بھی دے گا۔ آج سے 35 سال پہلے تم کچھ نہیں تھے اور 35 سال بعد بھی کچھ نہیں رہو گے۔ 35سال پہلے تم زیرو تھے اور 35سال بعد پھر زیرو ہو جاو گے اس کے درمیان کسی بھی گنتی کو حائل کرو گے توگنتی کا وہ نمبر زیرو سے ضرب کھائے گا اور نمبروں کے گھن چکر میں پھنسے رہ جاو گے۔ رب نے بڑاخوبصورت حساب کتاب رکھا ہوا ہے ہر کسی کی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہے اور اگر تھورا مشاہدہ کیا جائے تو ترازو ہر صورت برابر ہی رہتا ہے۔ ایم ڈی خاموش ہو گیا۔ وہ سر ہلاتا اٹھا اور چہرے پراطمینان کے تاثرات لئے باہر چلاگیا۔ اس گفتگو کے دوران ہی دکھ، تکلیف اور یاس کے قطرے جو اس کے وجود سے ٹپک رہے تھے خشک ہو چکے تھے۔

کبھی زندگی کے اس پہلو پر بھی غور کیجئے گا، کبھی سوچوں کی گاڑی کو زندگی کے اس حقیقی سفر پربھی گامزن کرکے دیکھئے گا۔ اس طرح بہت سارے نئے مناظر، بہت سارے نئے فلسفے، بہت ساری نئی حقیقتیں آپ کی ہمسفر بنیں گی۔ ہم زیرو ہی ہوتے ہیں پھر اس مقابلے کی اس دنیا میں ہماری آنکھ کھلتی ہے اور ہم ایک، دو، تین اور ناجانے کس نمبر تک خود کو لے جاتے ہیں۔ درحقیقت خود کو اونچے نمبروں تک لے جانے کے لئے ہم کیا کچھ نہیں کرتے؟ ہم اپنوں کے جذبوں کا خون بھی کرتے ہیں، ہم انسانیت کی تذلیل بھی کرتے ہیں، ہم اپنے ضمیر کو نیندکی گولیاں دے کر سلاتے بھی رہتے ہیں لیکن پھر ایک دن ہمارا یہ بہت بڑا نمبر زیرو سے ضرب کھا جاتا ہے اور ہم پھر سے زیرو ہو جاتے ہیں۔ ہم پھر سے زیرو ہو جاتے ہیں۔