1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. امجد عباس/
  4. کے-الیکٹرک، موبائل کمپنیاں اور دبنگ میڈیا

کے-الیکٹرک، موبائل کمپنیاں اور دبنگ میڈیا

پاکستانی میڈیا خبرساز ہے، اِس کا عام آدمی کے حقیقی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں معاوضہ وصول کر خبر بنائی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں بطور خاص الیکٹرانک میڈیا کا کردار انتہائی شرمناک ہے۔

کراچی میں کچھ دنوں سے جماعتِ اسلامی نے بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ، اووربلنگ اور دیگر مسائل کی وجہ سے کے-الیکٹرک کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے، جماعت کے کارکنوں کو شکوہ ہے کہ اُن کے دھرنے کو میڈیا مناسب کوریج نہیں دے رہا۔ بادلِ نخواستہ خبر دی جاتی ہے۔

کراچی میں جہاں قتل و غارت گری، گندگی اور اِن جیسے مسائل ہیں، وہیں اِس شہر کے باسیوں کو لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی سہنا پڑتا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان، پیپلزپارٹی، پاک سرزمین، پی ٹی آئی اور دیگر جماعتیں آئے روز مختلف مسائل پر احتجاج کرتی رہتی ہیں لیکن آج تک لوڈ شیڈنگ کے ذمہ دار گردانے جانے والی کے-الیکٹرک کمپنی کے خلاف کسی نے کوئی بات نہیں کی۔

سندھ کے جوشلیے وزیر اعلیٰ، وفاق کی جانب سے گیس نہ مہیا کیے جانے پر، گیس پائپ لائن بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں لیکن گرمیوں میں کراچی کے بلبلاتے عوام کی حالت کو دیکھتے ہوئے بھی کے-الیکٹرک کے خلاف کچھ نہیں کہتے۔

ایک صحافی کا کہنا ہے کہ وہ جماعت کے حالیہ دھرنے کی یوں خبر بنارہے تھے "کراچی، جماعت اسلامی کا کے-الیکٹرک کے خلاف دھرنا" تو اخبار انتظامیہ نے اُنھیں سمجھایا کہ خبر میں الیکٹرک کمپنی کا نام نہ لیا جائے، کمپنی اُنھیں بہت سے اشتہار دیتی ہے۔

جماعت کے ذمہ داروں کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ "روزنامہ جنگ" جیسے اخبار نے، کے-الیکٹرک کے خلاف یہ کہہ کر جماعت کا اشتہار نہیں چھاپا کہ اِس کمپنی سے اُنھیں بہت سے اشتہار اور تحائف ملتے ہیں۔

میڈیا سے وابستہ حضرات یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وطن عزیز کا میڈیا بہت "دبنگ" ہے، حکومت اور ریاستی اداروں سے ٹکر لی، بہت سے مسائل کو اُٹھایا، جن پر بات نہیں کی جا سکتی تھی، تاہم میڈیا کا رویہ اور طریقہ کار مشاہدہ کرنے سے اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سب بھاری نذرانے وصولنے کے سبب ہُوا۔ جہاں سے مال لیا، اُس کے حق میں پروپیگنڈا کیا، اِسی وجہ سے آج میڈیا مخصوص پہچان رکھتا ہے، پرو حکومت، پرو اسٹیبلشمنٹ، پرو اپوزیشن وغیرہ۔

عام آدمی کے روز مرہ کے جملہ مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ، موبائل کال مہیا کرنے والی کمپنیوں کی خراب سروس ہے۔ ا،س وقت وطن عزیز کے کئی علاقوں میں کسی کمپنی کی سروس دستیاب نہیں۔ راولپنڈی کے نواحی ضلع چکوال کے درجنوں دیہات (آڑہ بشارت اور مضافات) آج بھی موبائل کال کی سروس سے محروم ہیں۔

جن علاقوں میں اِن کمپنیوں کی سروس دستیاب ہے، وہاں کوالٹی عام طور پر ناگفتہ بہ ہے۔ شہر اقتدار، اسلام آباد ہی میں اِن کمپنیوں کی سروس تسلی بخش نہیں ہے۔ اضافی پیسے کٹنے کا تجربہ مجھے بھی ہوچکا۔ سوشل میڈیا پر لکھنے والے ایک صحافی نے، موبائل کمپیناں چور ہیں، کے نام سے کمپین چلائی۔ اسلام آباد میں اِن کمپنیوں کی سروس تسلی بخش نہیں تو باقی ملک میں کیا صورت حال پوگی!

اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے میڈیا نے کبھی اِس مسئلے کا تذکرہ نہیں کیا۔ دور کی کوڑی لانے والے کالم نگار، اِس عوامی مشکل کا تذکرہ کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے سرمایہ کاروں نے خوب سمجھ رکھا ہے کہ یہاں چند سو مقتدر افراد کو تحائف اور نذرانے دے کر کروڑوں عوام کو باآسامی لُوٹا جا سکتا ہے۔

یہاں ہر ماہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر اشتہار دے کر، صحافیوں کا منہ بند کروایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی میڈیا، سیاست دان، قانون نافذ کرنے اور چیک اینڈ بیلنس رکھنے والے ادارے سبھی بکاؤ مال ہیں، آپ مال دیجیے، پھر دیکھیے کس خلوص سے نمک حلالی کا مظاہرہ کیا جائے گا!

ٹی وی چینلوں پر بولتے بقراطوں اور کالم نگار افلاطونوں کو "مونگ پھلی" دیکر چُپ کروایا جا سکتا ہے۔ لفافے سے نوازنے والے سرمایہ کار کی مدح سرائی کو میڈیائی "مراثی" ہمہ وقت تیار ہیں، حضرت مرزا غالب کا یہ مصرع اِنھی پر صادق آتا ہے۔

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہاں مال دیجیے، لفافہ تھمائیے، تحائف دیجیے، پھر دیکھیے ہم کیسے حقیقی مسائل کو نظرانداز کرتے ہیں گویا پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔