1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. امجد عباس/
  4. رُوہنگیا مُسلمان مظلوم ہیں، لیکن مسئلہ محض مذہبی نھیں

رُوہنگیا مُسلمان مظلوم ہیں، لیکن مسئلہ محض مذہبی نھیں

میں نے گزشتہ دنوں لکھا تھا کہ رُوہنگیا مُسلمانوں کے ساتھ میانمار کی حکومت کا رویہ درست نھیں ہے۔ اُن پر ظُلم کیا جا رہا ہے، لیکن یہ مسئلہ مذہبی نھیں، اپنی بنیاد میں یہ نسلی اور سیاسی نوعیت کا ہے۔ میری اِس بات پر ہمارے کئی دوستوں نے اعتراض کیا، میں نے اپنی تحریر ہٹا دی اب محترم ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب (سابق وائس چانسلر) نے ایسا ہی کچھ بیان کیا ہے، ڈاکٹر صاحب کی تحریر ملاحظہ ہو " میں نے 2013 اکتوبر میں برما/ میا نمار کے دورے کے احوال بیان کیے، جس میں میں فیکٹ فا ئنڈنگ مشن کے ممبر کے طور پر شریک تھا اور جس کا انتظام امریکی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ فار گلوبل انگیجمنٹ نے کیا تھا۔

میں نے بتایا کہ روہنگیا کا مسئلہ اصلاً مذھبی نہیں بلکہ نسلی ہے۔ برما کے لوگ ان کو اصل برمی نہیں ما نتے۔ لیکن بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ لوگ صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں اور مکمل شہریت ان کا انسا نی حق ہے۔ وہا ں چینی نسل کے پنتھے مسلمان میانمار کے محترم شہری ہیں۔

روہنگیا کو انسانی حقوق کے سلوگن کے ساتھ اپنی جدوجہد کو منظم کرنا چاہیے اور میانمار میں الگ ریاست کی بات نہیں کرنا چاہیے۔ مونک ویراتو ان کا مخالف ہے۔ لیکن مونک سیتاگو اشین ان کا ہمدرد ہے۔ ان کو اپنے ہمدردوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ھونا چاہیے۔ برما میں فوج حکومت میں غالب ہے اور وہ ان جھگڑوں کو جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے تا کہ ان کی ضرورت برقرار رہے"

اِسی کے ساتھ ملا کر برادر ثاقب ملک کی رُوہنگیا مُسلمانوں کے موضوع پر تازہ تحریر سے ایک پیرا ملاحظہ ہو " رُوہنگیا اسٹیٹ لیس مظلوموں کے لیے ہمیں اپنی حکومت پر دباؤ ڈالتے رہنا چاہیے کہ وہ انکی مدد میں اپنا عملی کردار ادا کرے. میرا دل اور دماغ انکی مظلومیت پر یکسو ہے. روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار، انکی تاریخ اور دیگر معلومات پر مبنی فیس بک اور مین اسٹریم میڈیا پر درجنوں مضمون آچکے ہیں. گوگل، یو ٹیوب پر تمام معلومات موجود ہیں. میں ان میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتا. میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ مظلوم کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو میں آپکے ساتھ ہوں. ہر انسان آدم علیہ السلام کے واسطے انسانیت کے برادرانہ رشتے میں جڑا ہے. ہر مسلمان میرا روحانی بھائی ہے. اسکی اخلاقی، قانونی مدد میری استطاعت کے مطابق میری ذمہ داری ہے.

لیکن!!!

1. مظلوم کی مدد مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں کرنی چاہیے یہ ایک اور ظلم ہے.

2. مدد کی آڑ میں اشتعال انگیزی، جھوٹ کی آمیزش نیکی نہیں کمینگی ہے.

3. رولا، ماتم اور سیاپا ڈالنا نا اہلوں کا کام ہوتا ہے.

4. بطور انسان اور مسلمان ہماری پہلی ذمہ داری ہمارے اردگرد کے مظلوم ہونے چاہئیں. دور دراز کے لوگوں کی مدد بھی کرنی چاہیے مگر پہلی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد۔

مگر حالت یہ ہے کہ ہمیں شاید مجموعی طور پر کچھ نفسیاتی مسائل ہیں. ہم لوگ ہر وقت مسلمانوں کی مظلومیت کا راگ الاپتے رہتے ہیں"

ہماری نظر میں رُوہنگیا مُسلمان مظلوم ہیں، محروم ہیں، اُن کا مسئلہ خالص سیاسی نوعیت کا انسانی مسئلہ ہے، اِسے مذہبی رنگ دینا درست نہ ہوگا۔

مُسلم ممالک، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ذمہ دار افراد کا فریضہ ہے کہ اِس مسئلے کو حل کرنے کی مکمل کوششیں کریں تا کہ میانمار میں رُوہنگیا سُکھ کا سانس لیں۔