1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. امجد عباس/
  4. معاصر شیعی علمی، حوزوی ثقافت

معاصر شیعی علمی، حوزوی ثقافت

ہر دور میں اہلِ علم کے ہاں مخصوص اصطلاحات اور رسم و رواج رائج رہے ہیں، عصرِ حاضر میں شیعی علمی حلقوں میں مخصوص علمی اصطلاحات اور رسوم موجود ہیں جن کی قدرے وضاحت کرتا ہوں۔

حوزہ: عہد حاضر میں بڑے شیعی مدارس کے لیے لفظ "حوزہ علمیہ" استعمال کیا جاتا ہے، جس کا لغوی معنیٰ "علمی احاطہ/ وہ جگہ جہاں علمی بحث کی جاتی ہو، علمی مرکز" ہے، یہ اصطلاح متاخرین کی وضع کردہ ہے۔ شیعی علمی مراکز میں موجود بڑے مدارس کے لیے یہ لفظ رائج ہے جیسے "حوزہ علمیہ قم"، "حوزہ علمیہ، نجف اشرف" " حوزہ علمیہ، جامعہ الکوثر، اسلام آباد" وغیرہ۔

آیۃ اللہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ: یہ الفاظ بھی متاخرین کے درمیان رائج ہیں۔ لفظ آیۃ اللہ کا لغوی معنیٰ اللہ کی نشانی ہے، سب سے پہلے شیعہ علماء میں علامہ حلی کو آیۃ اللہ کہا گیا پھر محدث شیخ عباس قمی (متوفیٰ 1359 ھ) نے معاصر جید شیعہ علماء کو آیۃ اللہ کے لقب سے یاد کیا، رفتہ رفتہ اسلامی علوم کے ماہر فقیہ پر یہ لفظ بولا جانے لگا، پھر جو فقیہ باقاعدہ فتویٰ دیتا اُس کے لیے "آیۃ اللہ العظمیٰ" (اللہ کی بڑی نشانی) بولا جاتا ہے، جیسے آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حُسینی سیستانی دام ظلہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دام ظلہ، آیۃ اللہ شیخ محمد حسین نجفی دام ظلہ، آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ وغیرہ۔ آیۃ اللہ العظمیٰ کے لیے لفظ مرجع بھی مستعمل ہے۔ فقیہ سے کم درجہ کے علماء کے لیے حجۃ الاسلام، ثقۃ الاسلام، مولانا، مولوی، اخوند، آغا (اصل آقا) جیسے الفاظ بولے جاتے ہیں۔

سفید و سیاہ عمامہ: عمامہ، سر پر باندھنے والی مخصوص دستار، اسے مسنون جانا جاتا ہے۔ یہ شیعہ علماء کے مابین شروع سے رائج ہے، اس کا مخصوص انداز ہوتا ہے، عام طور پر اِس میں چھ سے بارہ میٹر تک کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔ شیعہ علماء کے ہاں رائج عمامہ بنانا، ہر کسی کے بس کی بات نھیں ہے، بندہ ابھی تک اِس فن سے نابلد ہے، بوقتِ حاجت کسی ماہر سے تیار کروانا پڑتا ہے۔ متاخرین میں سفید عمامہ غیر سید اور سیاہ عمامہ سید علماء کے ساتھ خاص ہو چکا ہے۔ ملحوظ رہے حوزات علمیہ میں سبھی غیر سید علماء کو "شیخ" بولا جاتا ہے جیسے شیخ امجد عباس۔ یہاں شیخ، سید کے مقابل ہے۔

درسِ خارج: کُھلی علمی مجلس، اب اجتہاد کے لیے، درسِ خارج پڑھنا اور پڑھانا پڑتا ہے۔ متقدمین کے نزدیک فقیہ کے لیے درسِ خارج پڑھنے، پڑھانے کی شرط مذکور نھیں۔ شاید سب سے پہلے نجف اشرف میں علامہ محمد کاظم خراسانی (متوفیٰ 1329ھ) نے یہ روش متعارف کروائی، اُن کا مسجدِ ہندی، نجف میں فقہ کا درس خارج ہوا کرتا تھا جس میں چھ سے سات سو علماء شریک ہوتے اور مسجدِ طوسی میں اصول فقہ کا درسِ خارج ہوتا جس میں ایک ہزار تک علماء شریک ہوتے پھر یہ علمی روش پختہ ہوتی چلی گئی، اب فقیہ بننے کے لیے درسِ خارج فقہ و اصول فقہ پڑھنا اور فتویٰ دینے کے لیے پڑھانا ہر دو لازم قرار پاتے ہیں۔

اس کا انداز کچھ یہ ہے کہ بنیادی دینی تعلیم یافتہ علماء کے لیے فقیہ فقہ اور اصول فقہ کی مباحث ترتیب وار پیش کرتا ہے، اس کی مدت چار سال سے بیس سال تک ہے۔ شاگرد اِن مباحث کو لکھا کرتے ہیں۔ کچھ دروسِ خارج انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ متاخرین کے ہاں فتویٰ دینے کے لیے اعلم ( سب سے زیادہ قوتِ استنباط والا ہونا) ہونا بھی لازم ہے، اِسی لیے ایک وقت میں ایک ہی فقیہ کے فتاویٰ پر عمل کرنا لازم سمجھا جاتا ہے۔ اہلِ تشیع کے ہاں ہر فقیہ فتویٰ نھیں دیتا۔ علمی حلقوں میں رائج طریقہ کار کو نہ اپنانے والے فقہاء کو پذیرائی حاصل نھیں ہوتی۔ چند ایک فتویٰ دینے والے فقہاء کے علاوہ دیگر شیعہ علماء ناقلِ فتاویٰ ہوتے ہیں۔ اہلِ تشیع کے ہاں "اجتہاد" کا عمل بہت مشکل بنادیا گیا ہے، ہاں شیعہ فقیہ مجتہد مطلق ہوتا ہے جو اپنے اصول و قواعد خود اجتہاد سے ترتیب دیتا ہے۔

احتیاطِ واجب/لازم: آج کل فتاویٰ میں احتیاط کا رجحان بڑھ گیا ہے، متاخر فقہاء کثرت سے "احتیاط" پر عمل پیرا ہیں۔ فقیہ کو جب کوئی واضح دلیل نھیں ملتی تو وہ احتیاط سے استفادہ کرتا ہے، احتیاط واجب یا لازم سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یا تو اِسی پر عمل کریں یا احتیاط والے مسئلے میں کسی اور فقیہ کی طرف رجوع کر لیا جائے۔ بعض متاخرین نے احتیاط میں مزید فرق کیا ہے کہ احتیاط لازم، ایسے مورد میں ہوگی جب فقیہ کے پاس کوئی عقلی دلیل ہو لیکن وہ دلیلِ تام نہ ہو اور احتیاط واجب، جب شرعی دلیل ہو لیکن وہ دلیل تام نہ ہو۔ اِسی طرح احتیاط مستحب بھی مستعمل ہے۔

توضیح المسائل/ رسالہ عملیہ: اس کتاب کو کہا جاتا ہے جس میں مکلفین کو درپیش شرعی احکام لکھے جاتے ہیں۔ توضیح المسائل، گویا فقیہ کے فتاویٰ پر مشتمل کتاب ہے۔ پہلی توضیح المسائل جو موجودہ شکل میں لکھی گئی وہ شیخ بہائی کی کتاب جامع عباسی ہے۔ اس کے بعد آیت اللہ سید حسین بروجردی نے اپنی مرجعیت کے دوران اپنے بعض شاگردوں کی ذمہ داری لگائی کہ وہ ان کے فتوؤں پر مشتمل رسالہ عملیہ کو ایک آسان پیرائے میں مرتب کریں۔ یوں ان کی کوششوں کا ثمرہ "رسالہ توضیح المسائل" کے عنوان سے تہران سے شایع ہوا، اب سبھی شیعہ فقہاء کے فتاویٰ پر مشتمل کتب کو "توضیح المسائل" کہا جاتا ہے، اِن میں محض فتاویٰ ہوتے ہیں، ادلہ مذکور نھیں ہوتیں۔ اردو میں آیۃ اللہ سیستانی، آیۃ اللہ خامنہ ای، آیۃ اللہ حافظ بشیر حسین نجفی جیسے فقہاء کی "توضیح المسائل" دستیات ہیں۔