1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. امجد عباس/
  4. سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے مسجد بنانا

سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے مسجد بنانا

آج ایک دوست نے دریافت کیا کہ سرکاری زمین پر، بلا اجازت، مسجد بنانے کے معتلق مسلمان فقہاء کی آراء مختصر طور پر بیان کر دیجیے تو عرض کیا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں شیعہ، احناف (دیوبندی اور بریلوی ہر دو) نیز اہلِ حدیث علماء کے نزدیک بھی حکومت سے اجازت لیے بغیر، سرکاری زمین پر مسجد بنانا جائز نھیں۔

۱۔ معاصر شیعہ فقیہ حضرت آیۃ اللہ، فضیلۃ الشیخ ناصر مکارم شیرازی بغیر اجازت، وقت کے گزرنے کے ساتھ، عام جگہ پر بنائی گئی مسجد کے متعلق لکھتے ہیں کہ اگر یقینی طور پر زمین غصبی ہو تو اِس میں سے کوئی بھی تصرف جائز نہیں ہے۔

۲۔ دار العلوم دیوبند نے سرکاری زمین پر مسجد بنانے کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے

اگر حکومت سے باقاعدہ مسجد کے نام زمین الاٹ کراکے سرکاری زمین پر مسجد بنائی جائے (تب درست ہوگی، ورنہ جائز نھیں)۔

نیز جامعہ بنوری ٹاون (جامعہ العلوم الاسلامیہ) کی ویب سائٹ پر اِس حوالے سے فتویٰ یُوں درج کیا گیا ہے کہ

سرکاری زمین پر مالک کی اجازت کے بغیر مسجد بناناجائز نہیں اس لیے اگر سرکار نے یا سرکاری مجاز افسر نے اجازت نہیں دی ہے تو مذکورہ جگہ شرعی مسجد نہیں۔ سرکار کو قیمت کی ادائیگی کرکے یاکسی طریقے سے راضی کرکے مذکورہ جگہ کو شرعی مسجد بنایا جاسکتا ہے۔

۳۔ دی فتویٰ ڈاٹ کام ویب سائٹ پر بریلوی مفتی شبیر احمد قادری لکھتے ہیں کہ

سرکاری زمین پر بغیر سرکار کی اجازت کے مسجد تعمیرکرنا شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔ اگر آپ مسجد سے متصل زمین کو مسجد میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے۔ کیونکہ سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بنانے سے زمین سرکار کی ملکیت میں ہی رہے گی اور سرکار کو اس میں تصرف کرنے اور وہاں سے مسجد ہٹانے کا اختیار باقی رہے۔ ایسا کرنے سے بعد میں تنازعات پیدا ہوتے ہیں اور بسا اوقات حکومت کی طرف سے ناجائز قبضہ ہٹانے کے لیے توڑ پھوڑ کی جاتی ہے جس سے اشتعال جنم لیتا ہے۔ اس لیے مسجد کی تعمیر صرف اس جگہ پر اور اتنی ہی جگہ پر کی جائے جتنی مسجد کے لیے خریدی گئی ہے، یا اسے کسی نے وقف کیا ہے۔

اس لیے اگر آپ سرکاری زمین پر مسجد بنانا چاہتے ہیں یا مسجد سے متصل سرکاری زمین کو مسجد میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو حکومت سے اس کی اجازت لیں یا زمین کی قیمت دے کر رضامندی سے خرید لیں۔

۴۔ فتاویٰ اہلِ حدیث جلد ۱، صفحہ ۷۶ پر تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ

عامۃ الناس کے لئے جو مساجد تعمیر کی جاتی ہیں ان کا وقف ہونا ضروری ہے۔ تاکہ تعمیر مسجد کے بعد کسی کو ذاتی تصرف کا حق نہ ہو اس بنا پر سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کےبغیر مسجد تعمیر کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ کسی کی مملوکہ زمین پر مسجد تعمیر کرنا یا اسے توسیع مسجد میں شامل کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ مالک زمین سے اس کے متعلق صریح اجازت حاصل کرلی جائے جبکہ سرکاری زمین پر بلااجازت حکومت مسجد بنانے سے زمین بدستور حکومت کی ملکیت رہتی ہے اور حکومت کو اس میں تصرف کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے جو تعمیر مساجد کے اغراض ومقاصد کے منافی ہے۔ بلا اجازت مسجد تعمیرکرنے کا مطلب یہ ہے کہ تعمیرکنند گان حکومتی اختیارات وتصرفات میں دخل اندازی کا ارتکاب کرتے ہیں جو شرعاً اخلاقاً اور قانوناً کسی طرح بھی درست نہیں ہے خاص طور پر اس پرفتن دور میں جب کہ بعض مقامات پر محض کاروباری نقطہ نظر سے مساجد تعمیر ہورہی ہیں۔ جہاں موقع ملا وہاں مسجد تعمیر کر ڈالی خواہ اس کی وہاں ضرورت ہی نہ ہو جیسا کہ عام طور پر گزرگاہوں چوراہوں اور سڑکوں کے کناروں پر ہورہا ہے ایسا کرنے سے حکومت کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر حکومت نے اپنی کسی اسکیم میں کوئی قطعہ اراضی مسجد کے لئے چھوڑ رکھا ہے۔ تو بھی تعمیر کے لئے حکومت سے اجازت نامہ ضروری ہے۔ تاکہ وہاں باہمی جدال واختلافات اور نفرت وکدورت کا دروازہ نہ کھلے۔ اگر کسی کی مملوکہ زمین پر مالک کی اجازت کے بغیر مسجد تعمیر کرلی جائے۔ تو وہاں نماز پڑھنے سے فرض تو ساقط ہوجائےگا۔ لیکن اللہ کے ہاں اس کے اجر وثواب کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے ضروری ہے کہ تعمیر مسجدسے پہلے مالک سے اجازت حاصل کرلی جائے خواہ وہ کسی کی ذاتی ملکیت ہویا سرکاری زمین پر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو سب سے پہلے تعمیر مسجد کا ارادہ کیا اس کے لئے جس جگہ کاانتخاب ہوا وہ قبیلہ بنو نجار کے لوگوں کی ملکیت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلا کر اس قطعہ اراضی کی قیمت اد کرنے کے متعلق پیش کش فرمائی۔ لیکن انھوں نے قیمت لینے کی بجائے اپنی خوشی سے فی سبیل اللہ وقف کردی اس کے بعد آپ نے وہاں مسجد تعمیر کی اس لئے مسجد کے لئے زمین کا وقف ہوناضروری ہے۔

(غصبی زمین، سرکاری ہو یا شخصی، اُس پر مسجد بنانا جائز نھیں۔ مسجد بنانے کے لیے اجازت لازم ہے ورنہ وہاں نماز پڑھنا جائز نہ ہوگا)۔