1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. امجد عباس/
  4. معاملات، شریعت اور فقہاء

معاملات، شریعت اور فقہاء

(ذبح، بیع، نکاح و طلاق وغیرہ جیسے معاملات اور شریعت)

ذبح کرنا عربوں میں رائج تھا، بنی اسرائیل بھی ذبح کیا کرتے تھے۔ فراعنہ کے مظالم بیان کرتے ہوئے قرآن نے بیان کیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کیا کرتے تھے۔ خرید و فروخت بھی شروع سے رائج تھی، ہاں پہلے چیز کے بدلے چیز (بارٹر ٹریڈ) کو بڑی اہمیت حاصل رہی۔ اِسی طرح نکاح، طلاق اور دیگر معاملات بھی شروع سے انسانوں میں رائج تھے۔

مختلف زمانوں میں انبیاء کرام نے اِن سبھی معاملات کو مُنظم کرنے کی کوشش کی۔ قرآن میں حضرت شُعیب علیہ السلام کے تذکرے میں بتایا گیا ہے کہ آپ کی قوم ناپ، تول میں کمی، بیشی کرتی تھی، جس پر آپؑ نے اُنھیں ٹوکا۔ حضرت لُوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو جنسی معاملات میں بے اعتدالی سے ٹوکا اور شادی کے نظام کو مضبوط کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے تو آپؑ کے سماج میں بھی تجارت رائج تھی، اِسی طرح نکاح و طلاق بھی۔ آپؑ نے تجارت کے نظام کو مضبوط کیا، اُس کی اخلاقیات کو طے کیا، ربا سے منع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تجارت کرنے کا طریقہ بیان نھیں فرمایا۔ قرآن نے بیان فرمایا کہ اللہ ربا کو حرام اور بیع (تجارت) کو درست قرار دیتا ہے، آیت مبارکہ ’’ أحل الله البيع وحرم الربا‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ بیع اور ربا عرب سماج کے لیے واضح مفاہیم میں سے تھے، خود اِن کی اصلیت کو قرآن نے بیان نھیں کیا۔ بیع (تجارت) کسے کہا جائے گا اور کیسے ہوگی، اِسے سماج پر چھوڑا، ہاں یہ بتایا کہ معاملہ واضح ہونا چاہیے، اُس میں کچھ ابہام نہ رہے۔ عرب اُس زمانے میں بول کر (صیغہ سے) خرید و فروخت کا معاملہ طے کیا کرتے تھے، آج بھی ہمارے فقہاء سمجھتے ہیں کہ تجارت میں صیغہ لازم ہے، گویا بیع کی حقیقت کو بھی فقہاء مُعین کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ شریعت نے اِس سے تعرض نھیں کیا، جسے بھی سماج بیع قرار دے گا، بیع کے احکام اُس پر لاگو ہوں گے۔ آج سُپر سٹوروں سے اور آن لائن خرید و فروخت بیع شمار ہوتی ہیں تو اِن پر بیع کے احکام ہی لاگو ہوں گے۔

اِسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں مشرکین، اپنے بتوں پر جانور ذبح کرکے قربانی کیے کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس عمل سے روکا، قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ذبح کے وقت بتوں کے بجائے اللہ کا نام لیا جانا چاہیے۔ شریعت میں ذبح کی چند اخلاقیات مذکور ہیں جیسے کہ تیز دھار آلے سے ذبح کیا جائے، جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ اُسے پہلے پانی پلایا جائے۔ شریعت نے ذبح کی حقیقت بیان نھیں فرمائی بلکہ یہ عُرفی مفہوم ہے، اِسے عُرف پر ہی چھوڑا ہے۔ اب بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ چھری لوہے کی ہو وغیرہ یہ تکلفِ محض ہے۔ جانور کا گلا تیز دھار آلے سے کاٹا جائے، یہ بنیادی ضابطہ ہے، اِس میں لوہے کی شرط نھیں۔

نکاح و طلاق میں بھی شریعت نے اِن کی اخلاقیات اور ضوابط طے کیے ہیں کہ یہ معاملات واضح ہونے چاہئیں۔ اِسی لیے کہا کہ یہ معاملات واضح الفاظ (صیغوں) میں بیان کیے جائیں۔ لڑکی، لڑکا ہر دو اِنھیں سمجھ سکیں۔ اِس کا مقصد معاملے کو شفاف بنانا تھا، عربوں نے یہ معاملات اپنی زبان (عربی) میں ادا کیے، فقہاء کا ایک گروہ آج بھی نکاح و طلاق میں عربی میں صیغے پڑھنے کا قائل ہے، یُوں نہ تو لڑکی سمجھ پاتی ہے کہ کیا کہا جارہا ہے، نہ ہی لڑکا سمجھ پاتا ہے، ایک مولوی صاحب عربی میں صیغے دَم کرتا ہے، اِس طرح صیغے تو عربی میں ادا ہوجاتے ہیں لیکن اِن صیغوں کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

فقہاء کو شریعت کے دائرہ کار کو دِقت سے دیکھنا ہوگا، شریعت نے ذبح، بیع، نکاح، طلاق اور ایسے دیگر معاملات کو از سر نو نھیں بنایا، بلکہ اِن کو مزید منظم کیا ہے، اِن کی اخلاقیات طے کی ہیں، خود اِن معاملات کی حقیقت کو عُرف پر چھوڑا ہے۔ سماج جسے بیع قرار دیتا ہے، اُس پر بیع کے احکام لاگو ہوں گے۔ بیع صیغہ سے ہوگی یا نھیں؟ ذبح صرف لوہے کی چُھری سے ہوگی یا کسی اور دھاتی چھری سے بھی ہو سکتی ہے؟ نکاح اور طلاق میں عربی میں صیغہ پڑھنا ہوگا یا نھیں؟ شریعت کو اِس سے بظاہر سروکار نھیں، اُس نے اِن جیسے معاملات کے یُوں احکام بیان کیے ہیں کہ بیع لازم ہوگی، نکاح تب صحیح ہوگا جب لڑکی، لڑکا دونوں راضی ہوں وغیرہ۔

(یہ ہماری اجمالی نظر ہے، مقامِ عمل میں اپنے فقہاء کی طرف رجوع کیجیے)