1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. امجد عباس/
  4. ​"تحقیق" کے نام پر، امام علیؑ کی تقصیر (قسط 1)

​"تحقیق" کے نام پر، امام علیؑ کی تقصیر (قسط 1)


​"تحقیق" کے نام پر، امام علیؑ کی تقصیر (قسط 1)


صحابہ کرام میں سے صرف امام علیؑ کی شخصیت ایسی ہے جن کے خلاف دانستہ و نادانستہ بہت کُچھ لکھا گیا۔ آپؑ کے صحیح فضائل اور اِس حوالے سے آنے والی صحیح و حسن احادیث کی ذرا رعایت نہیں کی گئی۔ اِسی سلسلے میں امام علیؑ کے قاتل کے متعلق "تحقیق" کو ملاحظہ کرتے ہیں، ملحوظ رہے کہ احادیث کو دیکھا جائے تو صحیح اور حسن درجے کی متعدد احادیث میں مذکور ہے کہ امام علیؑ کا قاتل، آخرین میں سے شقی ترین اور سب سے بڑا بدخت ہے۔


حافظ ابن حجر عسقلانی، شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں


قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ مَنْ أَشْقَى الْأَوَّلِينَ قَالَ عَاقِرُ النَّاقَةِ قَالَ فَمَنْ أَشْقَى الْآخِرِينَ قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ قَاتِلُكَ


کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علیؑ سے پوچھا کہ پہلوں ​​اور پچھلوں میں سب سے بدبخت ترین آدمی کون ہے؟ آپؑ نے فرمایا: پہلوں میں حضرت صالح کی اونٹنی کو کاٹنے والا جبکہ پچھلوں میں شقی ترین کے متعلق اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بتایا کہ تیرا قاتل۔


حافظ ابن حجر کا ماننا ہے کہ یہ حدیث متعدد محدثین نے عمدہ اسناد سے نقل کی ہے۔


(فتح الباری شرح صحیح البخاری، دار المعرفۃ، بیروت۔ ج7، صفحہ 47، باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)


علامہ البانی نے اِس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اِن الفاظ میں نقل کر کے اِسے صحیح قرار دیا ہے


"أشقى الأولين عاقر الناقة وأشقى الآخرين الذي يطعنك يا علي"


کہ پہلے لوگوں میں سب سے بڑا شقی، بدبخت حضرت صالح کی اونٹنی کو کاٹنے والا جبکہ بعد والوں میں سب سے بڑا شقی وہ ہے جو اے علی تجھے ضربت لگائے گا۔


(سلسلة الأحاديث الصحيحة، مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، الرياض۔ ج3، صفحہ 78، حدیث 1088)


اِنہی احادیث کے پیش نظر حافظ ابن حجر عسقلانی ابن ملجم ملعون کے متعلق لکھتے ہیں


هو أشقى هذه الأمة بالنص الثابت عن النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم بقتل علي بن أبي طالب، فقتله أولاد علي.


کہ ابن ملجم، حضرت علیؑ کو قتل کرنے کی وجہ سے، نصِ نبوی، جو ثابت ہے، کی رُو سے، اِس امت کا شقی ترین (سب سے بدبخت) شخص ہے۔


(الإصابة في تمييز الصحابة، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔ ج5، صفحہ 85، ترجمہ 6396)


یہی وجہ ہے کہ بہت سے علماء و محدثین نے ایسی احادیث کے پیش نظر امام علیؑ کے بدبخت قاتل کو اِس جرم کی وجہ سے کافر قرار دیا ہے، چنانچہ امام بیہقی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں


قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: إِنَّمَا اسْتَبَدَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا بَقَتْلِهِ قَبْلَ بُلُوغِ الصِّغَارِ مِنْ وَلَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ؛ لِأَنَّهُ قَتَلَهُ حَدًّا لِكُفْرِهِ لَا قِصَاصًا


کہ ہمارے بعض علماء نے کہا ہے کہ امام حسنؑ نے حضرت علیؑ کی اولاد میں سے بعض کے بالغ ہونے سے پہلے ہی، ابن ملجم کو قتل کردیا، یہ قتل قصاص نہ تھا، بلکہ کفر کے سبب تھا (ابن ملجم، امام علیؑ کے قتل کو مباح جاننے کی وجہ سے کافر ہوا تھا) پھر امام بیہقی نے آپؑ کے قاتل کے بدبخت ترین ہونے کی نبوی حدیث بطورِ دلیل پیش کی ہے۔


( السنن الكبرىٰ، دار الكتب العلمية، بيروت، ط3۔ ج8، صفحہ 103، حدیث 16069)


اسلام وِب ڈاٹ نیٹ نام کی ویب سائٹ پر اِسی حوالے سے ایک فتویٰ کے جواب میں مفتی صاحبان نے بہت سے علماء و محدثین کی تصریحات اور احادیث کے نقل کرنے کے بعد، ابن ملجم کو شقی ترین اور اِس جرم کی وجہ سے کافر قرار دیا ہے۔ (لنک کمنٹس میں موجود ہے)


اب ملاحظہ کیجیے ابنِ ملجم کے متعلق بعض علماء کی آراء اور اقوال، جو اِن صحیح اور حسن احادیث کے منافی ہیں، میں اِنھیں امام علیؑ کی تقصیر شمار کرتا ہوں:


علامہ ابن حزم اپنی کتاب "المُحلیٰ" میں لکھتے ہیں


وَلَا خِلَافَ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ الْأُمَّةِ فِي أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مُلْجَمٍ لَمْ يَقْتُلْ عَلِيًّا - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - إلَّا مُتَأَوِّلًا مُجْتَهِدًا مُقَدِّرًا أَنَّهُ عَلَى صَوَابٍ.


وَفِي ذَلِكَ يَقُولُ عِمْرَانُ بْنُ حِطَّانَ شَاعِرُ الصِّفْرِيَّةِ:


يَا ضَرْبَةً مِنْ تَقِيٍّ مَا أَرَادَ بِهَا ... إلَّا لِيَبْلُغَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ رِضْوَانًا


إنِّي لَأَذْكُرُهُ حِينًا فَأَحْسَبُهُ ... أَوْفَى الْبَرِّيَّةِ عِنْدَ اللَّهِ مِيزَانًا


کہ اُمت میں اِس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عبد الرحمان ابن ملجم نے امام علیؑ کو تاویل کرتے ہوئے شہید کیا، یہ اُس کا "اجتہاد" تھا، وہ خود کو حق پر جانتا تھا۔


خوارج کے گروہ صفریہ کا شاعر عمران بن حطان اِس حوالے سے اپنے اشعار کہتا ہے، جن کا مفہوم یہ ہے


کیا کہنے اُس پرہیزگار کی ضربت کے، جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا طلبی تھا۔ میں جب بھی ابنِ ملجم کو یاد کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سب سے بڑا وفادار (نیک) ہے۔


(المُحلیٰ بالآثار، دار الفکر، بیروت۔ ج11، صفحہ 130)


حافظ ذہبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ابن حزم کا کہنا ہے کہ (خارجی) لوگوں کا خیال ہے کہ ابن ملجم اہلِ زمین میں سب سے افضل ہے۔۔۔ جبکہ شیعوں کے نزدیک یہ شخص آخرت میں سب سے بڑا بدبخت ہے۔ پھر حافظ ذہبی ابن ملجم کے متعلق اپنا عقیدہ بتاتے ہیں


وهو عندنا أَهْل السُّنَّةِ ممّن نرجو له النار، ونجوِّز أن الله يتجاوز عَنْهُ، لَا كما يقول الخوارج والروافض فِيهِ. وحُكْمه حُكْم قاتِل عُثْمَان: وقاتل الزبير، وقاتل طَلْحَةَ، وقاتل سَعِيد بْن جُبَيْر، وقاتل عمّار، وقاتل خارجة، وقاتل الْحُسَيْن. فكلّ هؤلاء نبرأ منهم ونبغضهم فِي الله، وَنَكِلُ أمورَهُمْ إِلَى الله عز وجل.


ہم اہلِ سنت کے نزدیک ابن ملجم ایسا ہے جس کے متعلق اُمید ہے کہ جہنم میں جائے گا، ہم یہ بھی جائز سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے معاف کردے۔ اِس کا حکم بھی حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعید بن جُبَیر، حضرت عمار، حضرت خارجہ اور حضرت حُسین کے قاتل کا سا ہے۔ اِن سب (کے قاتلوں) سے ہم بیزار ہیں اور اللہ کی خاطر اِن سے بغض رکھتے ہیں اور اِن کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔


( تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، دار الكتاب العربي، بيروت، ط2۔ ج3، صفحہ 654)


حافظ ابن تیمیہ اپنی مناظرانہ کتاب میں حضرت عمر کے قاتل کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ کافر تھا، اسلام سے عناد رکھتا تھا لیکن حضرت علیؑ کا قاتل


وَالَّذِي قَتَلَ عَلِيًّا كَانَ يُصَلِّي وَيَصُومُ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَقَتَلَهُ مُعْتَقِدًا أَنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُحِبُّ قَتْلَ عَلِيٍّ، وَفَعَلَ ذَلِكَ مَحَبَّةً لِلَّهِ وَرَسُولِهِ - فِي زَعْمِهِ - وَإِنْ كَانَ فِي ذَلِكَ ضَالًّا مُبْتَدِعًا.


کہ جس نے حضرت علیؑ کو قتل کیا وہ نمازی، روزے رکھنے والا اور قارئِ قرآن تھا، اُس نے اس اعتقاد کے ساتھ آپؑ کو شہید کیا کہ اللہ اور اُس کا رسول یہی چاہتے ہیں، اُس نے یہ کام اللہ اور اُس کے رسول کی محبت میں کیا (اپنے گمان میں) اگرچہ وہ اِس بارے میں گمراہ اور بدعتی تھا۔


(منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية، ناشر جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية، ج7، صفحہ 153)


ابنِ حزم، حافظ ذہبی، ابن تیمیہ اور اِن جیسے علماء کا ایک گروہ ہے جس نے امام علیؑ کے قاتل کو "مجتہد"، "مؤول" اور نجانے کیا کیا شمار کیا ہے، ہاں جمہور علماء نے اِن کے نظریات کی تردید کی ہے۔ بعض نے تو اِبن ملجم ملعون کی شان میں قصیدے کہنے والے، اِس کے ہم نوا اور ہم مسلک عمران بن حطان ناصبی، خارجی سے روایات بھی لی ہیں۔۔۔


آخر میں ماضی قریب کے جلیل القدر عالم، محمد امین شنقیطی کی رائے تحریر کرتا ہوں، آپ نے سعودیہ میں درسِ تفسیر دیا، مکہ میں وفات پائی، اپنی مشہور تفسیر میں امام علیؑ کے قاتل کے شقی ترین ہونے کے متعلق احادیث درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں


وَلَا شَكَّ أَنَّ ابْنَ مُلْجِمٍ مُتَأَوِّلٌ - قَبَّحَهُ اللَّهُ - وَلَكِنَّهُ تَأْوِيلٌ بَعِيدٌ فَاسِدٌ، مُورِدُ صَاحِبِهِ النَّارَ۔۔۔ کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ابن ملجم بد بخت نے تاویل کرتے ہوئے امام علیؑ کو شیہد کیا لیکن یہ تاویل فاسد اور اِس کے قائل کا ٹھکانہ جہنم ہے۔۔۔ وہ بحث کے آخر میں اپنا نقطہءِ نظر یُوں دیتے ہیں


وَحُجَّةُ مَنْ قَالَ أَيْضًا بِكُفْرِهِ قَوِيَّةٌ ; لِلْحَدِيثِ الدَّالِّ عَلَى أَنَّهُ أَشْقَى الْآخِرِينَ، مَقْرُونًا بِقَاتِلِ نَاقَةِ صَالِحٍ الْمَذْكُورِ فِي قَوْلِهِ: إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا، وَذَلِكَ يَدُلُّ عَلَى كُفْرِهِ، وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى.


کہ ابن ملجم کو کافر کہنے والے کی دلیل مضبوط ہے، کیونکہ اِس پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس میں قاتل کو بعد والوں میں سب سے بڑا بدبخت قرار دیا گیا ہے، (حدیث میں) اِس کا ذکر حضرت صالح کی اونٹنی کے قاتل کے ساتھ ملا کر کیا گیا ہے، جس کے متعلق قرآن میں ہے: جب اُن میں سب سے بڑا بدبخت کھڑا ہوگیا۔ (سورہ شمس، آیت 12) یہی ابن ملجم کے کفر کو بیان کرتی ہے، حقیقی علم اللہ کے پاس ہے۔


(أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن، دار الفكر للطباعة و النشر و التوزيع بيروت، ج3، صفحہ 127، ذیل سورہ اِسراء، آیت: 33)


خُلاصہ:


صحیح اور حسن درجے کی احادیث میں امام علیؑ کے قاتل کو بدترین ظالم، شقی اور بدبخت قرار دیا گیا ہے، ایسے میں اُسے "مجتہد" اور "مؤول/تاویل کرنے والا" قرار دینا، شقاوت اور جسارت ہے۔ ایسا رویہ خارجی ذہنیت کا عکاس اور ارشاداتِ نبوی کے خلاف ہے۔ قارئین کا میری رائے اور نتائج سے اتفاق ضروری نہیں۔ اُمید کرتا ہوں کہ بحث و مباحثہ میں علمی اُسلوب کی ہی رعائت کی جائے گی۔


(ان شاء اللہ "تحقیق کے نام پر، امام علیؑ کی تقصیر" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھوں گا)