1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. امجد عباس/
  4. بیوی کے ساتھ زبردستی کرنا

بیوی کے ساتھ زبردستی کرنا

اِس مسئلہ کی بابت بہت سے دوستوں نے دریافت کیا۔ اِس مسئلے کے مختلف پہلو ہیں۔ مُسلم فقہاء کی اکثریت نے شادی کو بالخصوص حقِ مہر کو جنسی پہلو سے ہی دیکھا اور بحث کی ہے۔ ایسے میں اِن موضوعات پر محض فقہی لحاظ سے لکھنا خاصا دشوار ہے۔ ایسے مسائل کو اخلاقی اور حُسنِ معاشرت کے پہلو سے دیکھنا چاہیے، تاہم ڈاکٹر حافظ محمد زُبیر (اہلِ حدیث عالم) نے اِس موضوع پر لکھا ہے، ابتدائی طور پر اُن کی تحریر کے اقتباسات پیش کرتا ہوں۔

’’اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے فی الحال تین بڑے پہلو ہیں؛ مذہبی، نفسیاتی اور قانونی۔ مذہبی اعتبار سے بیوی اس بات کی پابند ہے کہ جب اس کا شوہر اسے اپنے بستر پر بلائے تو وہ انکار نہ کرے اور اگر وہ انکار کرے تو اس پر ساری رات فرشتوں کی لعنت رہتی ہے۔ ۔ ۔

پس اگر بیوی اپنے شوہر کو انکار کر دے تو شوہر اپنی بیوی سے زبردستی کر سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس بارے فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ بیوی کا یہ انکار کرنا "نشوز" یعنی سرکشی ہے اور نشوز کے بارے قرآن مجید نے یہ ہدایت دی ہے کہ پہلے اپنی بیوی کو وعظ کرے، اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو بستر علیحدہ کر لے، اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو اس پر سختی کرے۔ اگر تو اس کے باوجود بیوی انکار پر اصرار کرے تو وہ نان نفقے کی مستحق نہیں رہتی۔ لیکن یہاں یہ فرق ملحوظ رہے کہ فقہاء کے نزدیک اس انکار سے مراد بیوی کا بلاوجہ انکار کرنا ہے اور اگر انکار کی کوئی وجہ ہے جیسے بیوی بیمار ہے تو اس کا یہ حکم نہیں ہے۔

اس مسئلے کا دوسرا پہلو نفسیاتی ہے کہ عورت کی نفسیات یہ ہے کہ اس کے لیے یہ برداشت کرنا مشکل ہے کہ اس کے ساتھ زبردستی کوئی تعلق قائم کیا جائے۔ وہ یہ چاہتی ہے کہ جب وہ خود اپنے آپ کو مرد کے سپرد کرنے کے لیے دلی طور تیار ہو جائے تو اس وقت اس سے ایسا تعلق قائم کیا جائے، ورنہ تو اس کے لیے شدید ذہنی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، ان میں سے ایک اس فعل سے ہی نفرت کرنا یا خود خاوند سے نفرت کرنا بھی شامل ہے۔ اکثر بیویوں کے اپنے خاوندوں سے بھاگنے کی وجہ یہی ہے کہ ان سے ان کی رضامندی کے بغیر تعلق قائم کر لیا جاتا ہے جو ان کے ذہنی مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔

میرے خیال میں اعلی اخلاق یہی ہیں کہ اگر خاوند کے ہاتھ لگانے پر بیوی اس کے ہاتھ کو جھڑک دے تو اس کو ہاتھ لگانے کا خیال بھی دل سے نکال دے۔ اور یہی رویہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہمیں ملتا ہے۔ ۔ ۔

اس مسئلے کا تیسرا پہلو قانونی ہے تو بعض ممالک میں بیوی کے ساتھ زبردستی کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے کہ جس کی سزا بھی ہے جیسا کہ امریکہ، برطانیہ، روس، جاپان اور ترکی وغیرہ میں یہ ایک جرم ہے کہ شوہر یا بیوی میں سے کوئی بھی اپنے پارٹنر کے ساتھ زبردستی تعلق قائم کرے اور اکثر یورپین ممالک میں یہ ایک جرم ہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اکثر مسلم اور مشرقی ممالک مثلا انڈونیشیا، ملائیشیا، سعودی عرب، ایران، چین، انڈیا وغیرہ میں یہ جرم تصور نہیں ہوتا اور یہی بات درست ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

وہ اِس بحث کا خُلاصہ یُوں پیش کرتے ہیں کہ مزاج کی نفاست اور اعلی اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ شوہر اس معاملے میں بیوی کے ساتھ زبردستی نہ کرے بلکہ افہام وتفہیم سے اس مسئلے کو حل کرے، اور اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو اگر زیادہ تنگ ہے تو بیوی کا نان نفقہ بند کر دے۔ لیکن اگر شوہر ایسا کر لے تو یہ کوئی گناہ یا جرم نہیں ہے کہ جس کے لیے شوہر پر کوئی اخروی یا دنیاوی سزا لاگو ہو اور ایسی صورت میں اگر بیوی کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا ہوں تو اس کے لیے خلع کا رستہ کھلا ہے۔ اگر ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے اور شوہر سے واقعی میں کچھ فائدہ بھی حاصل نہیں ہو رہا تو پھر بہتر یہی ہے کہ شوہر کو صبر کی تلقین کرنے کی بجائے اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ‘‘

(اِس موضوع پر یہ تحریر ابتدائی مباحثہ کے لیے مفید ہے، ان شاء اللہ اِس مسئلے کے فقہی و اخلاقی پہلو پر اپنے معروضات، جلد ہی پیش کروں گا۔ )