1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آرائیں عباس/
  4. موبائیل فون کا بڑھتا ہوا استعمال

موبائیل فون کا بڑھتا ہوا استعمال

کوئی تو بات ہے اس میں فیض

ہر خوشی جس یہ لٹا دی ہم نے

سمارٹ فون کے بڑھتے ہوئے استعمال نے بنی نوع انساں کی تمام خوشیاں چھین لی ہیں۔ اس زہریلے سانپ نے سب کو ڈس لیا ہے۔ عورت مرد، بچے بوڑھے، تعلیمی یافتہ گوار، امیر غریب سب اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ ہر شخص کی زندگی کا کوئی پہلو پوشیدہ نہیں رہا۔ اس موذی بیماری نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا۔ بڑوں سے شفقت پیار اور وقت چھین لیا۔ بچوں سے ماں چھین لی۔ دوستوں سے دوستی چھین لی۔ ماں باپ سے بچے چھین لیے بڑے بوڑھوں سے شام کی بیٹھک چھین لی۔ بچیوں سے حیا شرم چھین لی۔ تعلیم یافتہ اشخاص سے تخلیقی صلاحت چھین لی۔ غریب سے محنت چھین لی۔ بھری دنیا میں اس ایجاد نے انسان کو اکیلا کر کے رکھ دیا ہے۔ پرانی باتیں دیومالائی کہانیاں لگتی ہیں۔ اس وقت مائوں کی ممتا بچوں پر مرکوز رہا کرتی تھی۔ زرا سا رونے پر مائیں اپنے کام چھوڑ کر اپنا پیار اپنا لاڈ ان پر نچھاور کردیتی تھیں۔ ساری ساری رات ہاتھ کا پنکھا لیے بیٹھی بچوں کے سکون اور آرام کی نیند پر اپنی نیند قربان کردیا کرتیں تھیں۔ بچوں کی تربیت ماوں کے ہاتھوں میں تھی اس لیے شرم وحیا، غیرت و احترام، اخلاقی قدریں معاشروں میں نظر آیا کرتیں تھیں اب ماں کی جگہ سمارٹ فون نے لے لی ہے۔ مائیں اب صرف بائیولوجیکل مائیں بن کر رہ گئیں ہیں۔ باقی تمام بچوں کے معملات ماوں نے سمارٹ فون کے سپرد کر دیئے ہیں۔ اسی لیے معاشروں سے حیا شرم، عزت احترام اور اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے۔ جب بچپن میں ماں بچے کے ہاتھ میں سمارٹ فون تھما کر یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ بچے سے جان چھوٹ گئی۔ تو ظاہر سی بات ہے کہ بچوں کی قربت فون سے ہی بڑھے گی بچے کے لیے تو وہ ہی ماں ہے جو اس کے پاس ہر وقت ہے۔ یہ ماں جو اسے سیکھائے گی وہی وہ سیکھے گا۔

باپ کے پاس بچے کے لیے گھوڑا بن کر سواری کروانے کا وقت نہیں رہا۔ بچوں کے ساتھ بچہ بن کر کھیلنا اسے معیوب لگنے لگا۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باپ کے پاس وقت کی کمی ہے پر بچوں کا وقت فون نے چھین لیا۔ باپ کو اپنی نمائش سے فرصت نہیں ملتی وہ کیا خاک بچوں کو وقت دے گا۔ یاد رہے محبتیں گزارے وقت کی ہوتی ہیں نہ کہ رشتوں کی۔ ایک ماں دو بیٹوں کو جنم دیتی ہے۔ پیدائش کے بعد ان دونوں میں سے ایک بچے کو ماں کسی ضرورت مند جوڑے کو دے دیتی ہے اور ایک بچہ ماں کے ساتھ ر ہنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کا سارا وقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے۔ یہ بچہ ماں کی ممتا اور پیار کے سائے میں پروان چڑھتا ہے۔ اور دوسرا پیدائش کے بعد سے ماں سے دور رہا۔ ماں کی موت کی درناک خبر دونوں سنتے ہیں۔ ماں کے ساتھ رہنے والے بچے کو یہ غم کھا جائے گا اس کے برعکس دوسرے بچے کو یہ خبر سرسری سی ہی محسوس ہو گی۔ اور تکلیف بھی ساتھ رہنے والے کی نسبت کم ہی ہو گی۔ یہ فطرتی امر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے محبتیں رشتوں سے نہیں ساتھ گزارے ٹائم سے پیدا ہوتی ہیں۔ یقینی سی بات ہے، جب باپ بچوں کے ساتھ وقت ہی نہیں گزارے گا تو بچوں میں باپ کی محبت اور احترام کہاں سے پیدا ہوگا۔

دھاڑیں مار مار کر رونے کا دل کرتا ہے کہ اس کمبخت فون نے ہماری مذہبی، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ نوجوان بچے بچیاں جو قوم کا مستقبل ہیں وہ بے راہروی کا شکار ہیں۔ شرم سے سر جھک جاتا ہے جب جوان بچیاں نازیبہ قسم کی وڈیوز میں ناچنے پر لائکس کی طلب گار نظر آتی ہیں۔ بے ہودہ لباس فیشن بن گیا ہے۔ لڑکے لڑکیاں سب ٹک ٹاک سٹار بن گئے۔ نوجوان مصنوعی زندگی کو کامیابی سمجھنے لگے تو کیا بچا ہمارے پاس۔

نہ جانے وہ گھرانے کہاں کھو گئے جن میں ہر شام حسین محفلیں جما کرتی تھیں۔ گھر کے بڑے بوڑھے، ماں باپ، بچے سب مل کر بیٹھتے تھے۔ مونگ پھلیوں، خشک میواجات، گرما گرم چائے کے دور چلا کرتے تھے۔ گھنٹے پلوں میں گزر جاتے تھے۔ اس فون کی موجودگی نے پل گھنٹوں میں بدل دیے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ساتھ بیٹھنے کا رواج نہیں رہا اگر دس دوست کہیں بیٹھے ہوئے نظر آئیں تو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ سب نے اپنے منہ فون کی اسکرین میں گھسائے ہوے ہوتے ہیں۔ جیسے کسی سے کسی کا تعلق نہیں! ہوں ہاں سے بڑھ کر بات نہیں ہوتی کسی کی کسی سےکوئی بات چیت نہیں ہر شخص اپنی ذات میں مگن مصنوعی زندگی میں غرق نظر آتا ہے۔ فیس بک کے مصنوعی دوست، بے ہودہ ڈرامے فلمیں، ظاہری چمک دمک اور اندر سے مردہ زندگی! اللہ اللہ!

حقیقت خرافات میں کھو گئی

یہ قوم فون میں کھو ےگئی!

اب ہم ایسے زمانے سے گذر رہے ہیں جہاں ہر طرف شور و غل، گھر لوگوں سے بھرے ہوئے، مارکیٹوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی مگر زندگی خالی کوئی کسی کا پرسانے حال نہیں۔ ماں کو بچوں کی ضرورت نہیں، بچوں کو ماں کی چاہت نہیں۔ باپ کو گھر کی پرواہ نہیں گھر والوں کو باپ کی ضرورت نہیں۔ سب کو ضرورت اگر ہے تو سمارٹ فون کی ضرورت ہے۔ رشتے تو ختم ہو ہی گئے ہیں۔ سکوں بھی چھنتا جارہا ہے ہمیں ہوش نہیں !اس موذی بیماری سے کوئی بچ تو سکتا نہیں پر کوشش کر کے اس کے استعمال میں کمی تو لائی جاسکتی ہے۔ اس کے استعمال میں کمی سے ہی گھر اور رشتوں کی خوشیاں لوٹ سکتی ہیں۔ کام مشکل ضرور ہے پر نہ ممکن نہیں۔

نیند تو آنے کو تھی پر دل پچھلے قصے لے بیٹھا

اب خود کو بے وقت سلانے میں کچھ وقت لگے گا!