1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آرائیں عباس/
  4. مراثی بنے حاکم

مراثی بنے حاکم

ملک خداداد کے وزیراعظم صاحب نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ " میں نے پاکستان کو بہتر کرنے کی اپنی ساری کوشش کی مگر مافیاز نے مجھے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ لیکن مجھے دلی سکون اور اطمینان تو ہے کہ میں اللہ تعالٰی کو کہہ سکوں گا کہ اللہ میں نے اپنے تائیں بہت بھاگ دوڑ تو کی پاکستان کو بہتر کرنے کی "۔

اس پر مجھے وہ لطیفے نما کہانی یاد آئی۔ ایک بندر ڈاکٹر ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایک دن ایک مریض لایا گیا۔ مریض کے ساتھ آنے والے لوگوں نے ڈاکٹر کی بڑی منت سماجت کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاھب مریض کو بچا لیجئے۔ ڈاکٹر نے مریض کی نبض کیا پکڑی کہ ڈاکٹر توبھاگ کر درخت پر چڑھ گیا، چھلانگ لگائے تو اس درخت پر تو کبھی اس درخت پر۔ مریض تکلیف کے مارے کرہاتے ہوئے بلآخر جان دے دیتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ڈاکٹر صاحب درخت سے نیچے اتر آتا ہے اور مریض کے لواحیقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہتا ہے بس جی اللہ کی رضا اسی میں تھی ورنہ آپ لوگوں کے سامنے میں نے اسے بچانے کے لئے بڑی بھاگ دوڑ کی پر بچا نہیں سکا۔ ہمارے وزیراعظم صاحب نے بھی اس بندر ڈاکٹر کی طرح بہت بھاگ دوڑ کی ملک کو بہتر کرنے کی پر بہتر کر نہیں پائے الٹا مزید آئی سی یو میں ڈال دیا ہے۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑا!

شک ان کی نیک نیتی پر نہیں کام پر ہے۔ اصل میں وزیراعظم کو لے ڈوبے ان کے حواری جو انھوں نے اپنے اردگرد پال رکھے ہیں۔ مراثیوں کا ٹولہ ہے۔ جنھیں کا ہی "پاگ لگے رین" کا آتا ہے۔ وہ کیا کام کریں گے یا کرنے دیں گے۔ کل تک جو ناچ ناچ کر تبدیلی کے گانے گایا کرتے تھے اب وہ گورنر صاحب ہیں۔ بلو کو نچانے والا خان صاحب کا خاص حواری اور خیر خواہ، منہ کی کلاشنکوف مرادوں والے جادوگر اربوں لانے والے مداری، لال ولال حویلی والے نجومی! مراثی، جادوگر، مداریوں نے تو وہی کرنا ہے جو انھیں آتا ہے۔ حکومت ان کے بس کی بات نہیں! بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔ ان سب کا کام صرف یہ ہے کہ خان صاحب کی مالا جپتے رہو۔ واہ سائیں واہ کی صدائیں بلند کرتے رہو تا کہ خان صاحب اپنی تعریفیں اور توصیفیں سن کر ذرا اور سینہ پھلا کر تھوڑا اکڑ کے ساتھ چلیں پھریں۔ کیونکہ تعریف و توصیف کس کو نہیں بھاتی۔ تعریف و توصیف تو ٹھیک ہے پر بندے میں اتنی قابلیت بھی تو ہو کہ کام کو کچھ حد تک تو کرنا جانتا ہو۔ بات یہ بھی بجا ہے کہ کام کرنے کی قابلیت تو اس وقت اگر پہلے کام کیا ہو۔ موصوف نے تو جوانی لاابالی لونڈوں کی طرح کھیل کود میں گزار دی۔

زندگی کے گزر سفر کے لئے کسی نے کان بھرے کہ اپنے 1992 کے کپ کو کیش کروائو۔ لوگوں سے چندہ لو اور ہسپتال کی بنیاد رکھو۔ لوگ چندہ دیتے رہیں گے ہسپتال کے ساتھ ساتھ چولھا چوکھا بھی چلتا رہے گا۔ بس پھر کیا تھا کہ خان صاحب ادھر کگ پڑھے، دل کھول کے مانگ چندہ!یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس شعبہ میں مہارت رکھتا ہے۔ جب کسی مقام پہ پہنچ جائے تو اس ہی شعبہ کو سب سے پہلے پروان چرھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وجہ اس کی مہارت ہے! لنگر خانے کیا واضع مثال نہیں!کوئی مانے یا نہ مانے اس حکومت نے ایک شعبہ پر تو کما حقہ کام کیا اور اس شعبہ میں دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔ گو یہ شعبہ ہر گز اس حکومت کی پیداوار نہیں پر اس کو پالیش کرنے کا کریڈیٹ تو خیر ان کو جاتا ہے۔ غالباآپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔ شعبہ گداگری!اس شعبے میں ملک خداداد نے باکمال گداگر پیدا کئے ہیں جن کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ بات دوسری طرف نکل جائے گی مگر وضاحت ضروری ہے۔ اس ملک میں گداگری کے مختلف رینک ہیں ہر گداگر اپنی بساط کے مطابق رینک خود ہی منتخب کر لیتا ہے۔

ایک بھکاری وہ جو گلی کوچوں میں صدائیں لگا کر مانگتا ہے۔ اس قسم کے بھکاری کی وضاحت ضروری نہیں کیونکہ یہ اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص کا پالا روز ان سے پڑتا رہتا ہے۔ دوسری قسم ان حضرات کی ہے جو یتیم اور لاوارث بچوں کے نام پر لوگوں کو اموشنل بلیک میل کر کے چندہ جمع کرتے ہیں۔ ان میں مہارت مذہبی حضرات کی ہے۔ بس ایک مدرسہ کھول لو اور پھر پیسہ ہی پیسہ۔ مولانا کے 12 بچے کھانے والے، تنخواہ 5 سے 6 ہزار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا کا لائف اسٹائل شاندار، بڑا گھر، کروڑوں کی گاڑیاں، آنیاں جایناں۔۔۔۔۔۔ ہٹو بچو۔۔۔۔ ! ظاہر ہے یہ سب 5، 6 ہزار میں تو نہیں ہو سکتا۔ تو پھر بھائی یہ مانگی ہوئی بھیک کے کرشمے ہیں!

تیسری قسم گداگری کی شوشل ویلفیئر کے پروجیکٹس ہیں۔ یہ بھکاری زرا مشہور لوگ ہی بنتے ہیں ہی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے کئی کھلاڑی، اداکار، مراثی گانے بجانے والے جب دیکھتے ہیں کی ان کی آمدن کم ہو رہی ہے یا ان کا دھندہ تھوڑا ڈھیلا پڑھ رہا ہے تو وہ پھر لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی ادارہ بنالیتے ہیں۔ اس سے ان کا بغیر پیسےلگائے اور بغیر محنت کئے کاروبار چل پڑھتا ہے۔ مانگو چندہ رہو خوش و خرم۔ ہو سکتا ہے آپ میری بات سے اتفاق نہ کرتے ہوں مگر یاد رکہیں ایک طرف عبدالستار ایدھی صاحب، فرشتہ صفت انسان کی زندگی اور لائف اسٹائل دیکھ لیں اور دوسری طرف مراثیوں، کھلاڑیوں کے ادارے اور لائف اسٹائل دیکھ لیں۔ واضع ہو جائے گا کہ لوگوں کی فلاح کے لئے کس نے زندگی وقف کی اور کون بھکاری بن کر اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔

ایسی سوچ اور سمجھ کے ساتھ کوئی ملک چلا کرتے ہیں۔ اپنا آپ تو ہر شخص کو نیک پاک، معصوم لگتا ہے مزہ تو تب ہے جب دوسرے کہیں کی کمال کا محنتی ہے!