1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آرائیں عباس/
  4. وطن عزیز کے اصل مالک

وطن عزیز کے اصل مالک

وطن عزیز جسے ہم ترانوں اور باتوں کی حد تک بہت عزیز سمجھتے ہیں ویسے نہ تو اس کو وطن اور نہ ہی اس میں بسنے والو ں کو کوئی قوم گر دانتے ہیں۔ ہر شخص اپنے تائیں اور ہر فرد اپنے محور سے ہٹ کر کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس میں اپنے ذاتی فائدے کو ملک پر فوقیت دینا ہمارا شعار بن چکا ہے۔ 74 سالوں میں باقی تو کجا ہم حکومت کرنے کے جھمیلوں سے ہی نہیں نکل پائے کہ حکومت کس نے کرنی ہے اور کس پر کرنی ہے اور کیوں کرنی ہے یا اس ملک کے باسیوں کی فلاح بہبود کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں۔ اور کس نے کرنے ہیں۔ میری ناچیز کی عقل تو یہ کہتی ہے کہ یہ ملک نہ ایک ہم نے محکمہ زراعت یا خلائی مخلوق عمومی طور پر ایسی قسم کے ناموں سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ ہماری آزادی کا اندازہ یہ ہی لگالیں کہ ہم کتنے آزاد ہیں۔ بھائی ہم تو کیا ہمارا قلم بھی آزاد نہیں۔ ہم اپنے اور اپنی نسل کے مستقبل کے قاتلوں کے نام بھی کھل کر نہیں لے سکتے؟ حاصل کیا ہے اس ملک میں اگر ترقی کی منزلیں اگر کسی طے کیں ہیں تو وہ محکمہ زراعت کے کرتوں دھرتوں نے ہی کیں ہیں۔ اوپر سے باضدد کہ کوئی نام نہ لے۔

تم ہو بت پھر تمھیں پندار خدائی کیوں ہے

تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی

کہتے ہیں کہ جب حجاج بن یوسف پیدا ہوا تو اس نے اپنی ماں کا دودھ پینے سے انکار کر دیا جس سے خاندان کے سب افراد پریشان تھے آخر ایک دانا نے تجویز کیا کہ اگر تین دن تک اسے بھیڑ کا خون پلایا جائے تو چوتھے دن عورت کا دودھ پینا شروع کر دیگا۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ چونکہ خون اس کی گھٹی میں پڑھ چکا تھا اس لیے قتل و نجارت سے کبھی دریغ نہ کیا۔ وہ خودکہا کرتا تھا کہ " خون بہانے اور سّفا کا نہ افعال کا ارتکاب کرنے میں مجھے وہ لذت ملی ہے جیسے میں ہی محسوس کر سکتا ہوں۔ یہی حال ہمارے ملک میں ملک کے اصل مالکوں کا ہے ان کے منہ کو خون شروع دن ہی سے لگ گیا تھا اب انہیں عوام کے خون پینے کی عادت ہوگئی ہے۔ انھیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ خود خوشحال آسودہ ہیں تو سب لوگ جو اس وطن میں آباد ہیں وہ سب خوشحال ہی ہیں۔ صحت، تعلیم، نہ عوام کی فلاح و بہبود نہ ترقی نہ جینے کا حق سب تو انھوں نےغصب کر رکھا ہے۔ ہمیں نہ منزل نہ رہبر کوئی بھی میسر نہیں آیا۔ اس لیے ہم بھی قوم نہ بن سکے سب ہجوم بن بیٹھے۔ نہ ہمیں آج تک توفیق ہوئی کہ علم بغا وت بلند کریں اور اپنا حق چھین لیں ان زمینی خداؤں سے اور نہ انھیں غیرت آتی کہ اب ہی خون چوسنا بند کردیں۔

بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تُونے

بنائے خاک سے اُس نے دو صد ہزار ابلیس!

ابلیس نما زمینی خدا ہی ملک کے اصل مالک ہیں۔ عوام 1947 سے پہلے بھی غلام تھے اور اب بھی غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بھیڑ بکریوں کی طرح یہ جہاں چاہتے ہیں ہانک دیتے ہیں۔