1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آرائیں عباس/
  4. اب کچھ تو کرنا ہو گا

اب کچھ تو کرنا ہو گا

جنگل کا نظام اس وقت تک ہی با احسن طرز پر چلتا ہے جب تک جنگل ہرابھرا رہتا ہے اور اگر جنگل سوکھنے اور بنجر ہونا شروع ہو جائے تو جانورون کو تشویش لاحق ہو جاتی ہے کہ اب ان کا کیا بنے گا۔ وہ کہا جایئں گے۔ ایسی حالت میں جانور جن کی فطرت میں درندگی بھری ہوتی ہے وہ بھی مصلیحت، رواداری اور اتفاق کا مظا ہرہ کرنے لگتے ہیں۔ اپنے گھر یعنی جنگل کی بقاء کے لیے اپنی اپنی حد تک کام کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں کیوں کہ گھر ہے تو زندگی ہے۔ انسان کو خدا تعالٰی نے اشرفالخلوقات بنایا ہے اور اسے جانوروں اور اپنی دوسری مخلوقات پر فوقیت دی ہے۔ اگر انسان اپنی خستہ حالت پر پریشان اور پشیمان نظر نہ آئے تو افسوس صد افسوس کے علاوہ کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ باحیثیت قوم اگر ہم اپنا جائزہ لیں توجس روڑڈکو نظر میں رکھ کر ہم نے وطن عزیز کا حاصل کیا تھا۔ اس روڈ کے پہلے ہی اسٹیشن پر ساری قوم نے اپنے اپنے روڈ میپ بنا کر بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ نہ منزل ایک رہی! نہ قائد ایک رہا! نہ ہی مقصد ایک رہا۔ ہر شخص کا اپنا قبلہ، اپنا مقصد، اپنی منزل نے پاکستانی قوم کو ایک قوم رہنے ہی نہیں دیا۔ اب حال یہ ہے کہ اس ایک ریاست میں کئی ریاستیں پنپ رہی ہیں بلکہ پنپ چکی ہیں۔ سیاست دانوں کی اپنی ایک ریاست ہے جس میں عام آدمی گدھے گھوڑے ہیں جب ان کا دل چاہتا ہے انھیں ہنک لیتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی ریاست جو باقی ریاستوں کے مقابلے میں مضبوط ترین ریاست جس میں کوئی ان کے شر سے محفوظ نہیں اور نہ ہی جرات کر سکتا ہے کہ ان سے ان کی زیادتیوں کا پوچھ بھی سکے۔ تاجروں کی ریاست جہاں عوام کا خون پینا حلال ہے کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ وڈیروں، جاگیرداروں کی ریاست جہاں غریب کسان غلام ہے۔ حکومتی عہدیداروں کی ریاست، امیرخاندانوں کی ریاست، غریبوں کی ریاست جہاں بے بسی، مفلسی کا راج ہے۔ اس ملک مین ہر ریاست کے اپنے قوانین ہیں۔ جس کا جہاں بس چل رہا ہے وہ دوسرے کو کھا جاتا ہے۔ اس مین کوئی شک نہیں کہ ریاست میں ریاستیں فطری قوانیں کو نگل جاتی ہیں۔ کیا یہ سب اسی طرح چلے گا یا۔

ہمیں باحیثیت قوم سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، اپنی پستی اور گراوٹ کے اثباب تلاش کرنے ہونگے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارا ملک ترقی کرنے کے بجائے دن با دن تباہی اور زوال کی طرف کیوں جا رہا ہے۔ ہمارا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس کی مثال دی جائے کہ بہتری کی طرف گامزن ہے۔ معیشت وہ تباہ حال جس کے بہتر ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ ہر آنے والا دن اس قوم کو مقروض بنا رہا۔ قرضوں کے منوں بوج تلے دھنستے جا رہے ہیں اگر یہی حال رہا تو ہمارا تشخص ہماری بچی کچی آزادی بھی غلامی میں بدل دی جائے گی۔ تعلیم کا حال ہم سب جانتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کسی بھی قوم اور معاشرے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندہ رہنے کے لیے ہوا۔ نہ ہمارے پاس تعلیمی ادارے اچھے، نہ اساتذہ اور نہ ہی پڑھنے والے طالب علم، طالب علم بھی بچارے کیا کریں وہ تعلیم پر توجہ دیں یا فیس بک، انسٹاگرام، واٹس اپ، جو اس دور کی ضرورت ہیں بھئی! ان کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا، اسٹیٹس نہیں بنتا۔ تعلیم اور تربیت تو معمولی شے ہے اس کا کیا کرنا۔ ڈرامے اور فلمیں انکے علاوہ سر کا درد ہیں۔ صحت کا شعبہ، ڈاکٹرز کو صرف اس لیے رکھا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کی رہنمائی کر سکیں کہ مریض کی حالت ٹھیک نہیں اسے حیدرآباد لے جائیں، حیدرآباد والے گائیڈ کرتے ہیں انھیں کراچی لے جائیں۔ کراچی والے کہہ دیتے ہیں بس جی دعا کریں اور انھیں گھر لیں جائیں کوئی پرسان حال نہیں۔ صحت کے حوالے سے بہترین مثال حالیہ کروناوائریس کی وباء ہے۔ پچھلے دو سال سے ہم سب گوما گو کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ نہ ریاستی صدباب نظر آتا ہے اور نہ ہی عوام وناس اپنے تائیں کوئی احتیاط کرنا گواراہ کر رہے ہیں۔

پاکستانیوں کا مجموعی طور پر یہی المیہ ہے کہ اللہ مالک ہے جو ہونا ہے ہو کے ہے گا۔ اس میں کوئی شعبہ نہیں کہ اللہ ہی مالک ہے پر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو اپنی حالت بہتر کرنے کا حق نہیں دیا۔ مقدر میں جو لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ مقدر اللہ نے لکھا ہے وہ ہمارا خالق ہے اور وہ جانتا ہے کہ انسان کہاں بے بس ہو جائے گا۔ جہاں وہ بے بس ہو جائے گا وہ مقدر کی صورت خدا تعالٰی نے لکھ رکھا ہے اور ہم ہیں کے سرے سے ہی کوشش نہیں کرتے۔

اب وقت آ گیا ہے اپنی حالت بہتر کرنے کا اور اگر اب بھی نہیں تو پھر بھیانک انجام ہمارا منتظر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کریں کیا۔ پہلا قدم اپنی ذات کی اصلاح ہے اور خود کو عمل کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس کے بعد نیک نیتی کے ساتھ اپنا اپنا کام اس کے حق کے مطابق کرنے کی کوشش۔ موبائل فون کا استعمال صرف بات چیت تک محدود کرنا کیوں کہ یہی جڑ ہے کام چوری کی۔

یہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔