1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آرائیں عباس/
  4. ہمارا تعلیمی نظام اور اس کے نقائص

ہمارا تعلیمی نظام اور اس کے نقائص

تبدیلی کا نام ترقی نہیں بلکہ ترقی کی ضرورت تبدیلی ہے۔ ایسی تبدیلی ہرگز نہیں جیسی پچھلے اڈھائی سال سے پاکستانی قوم پر مسلط ہے۔ جو ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ آئی اور ملک و قوم کی جڑوں میں بیٹھ گئی۔ ہم اس تبدیلی کی بات کر رہے ہیں جس سے ظاہری طور پر چیزیں اپنی خستہ حالت سے بہتری کی طرف آتی محسوس ہوں۔ اور ترقی ہوتی ہوئی اس وقت ہی محسوس ہوگی جب لوگوں کی فلاح و بہبود، رہن سہن، لائف اسٹائل، تہذیب وتمدن، اخلاقیات، اور مذہبی سرگرمیوں میں تبدیلی آئے گی صرف تبدیلی کے نعرے لگانے سے ترقی ملک وقوم کا مقدر نہیں بن سکتی۔

تعلیم وہ واحد ذریعہ ہے جس سے کسی قوم کو بنایا یا تباہ کیا جا سکتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ تعلیم ہماری قوم کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ جتنا تعلیم کو حساس مسئلہ بانی پاکستان نے بنا کر پیش کیا اتنا ہی ہم نے اس کو باقی تمام مسائل سے کم تر گردانتے ہوئے پیچھے پھینک دیا۔ انگریزوں سے آزادی 1947 میں حاصل کی۔ اس دور کا موازنہ کیا جائے تو آج سے چندہ فرق نہیں۔ اس وقت پاکستانی علاقے انڈین علاقوں سے زیادہ پسمندہ تھے۔ آزادی کے وقت ان پڑھ لوگوں کی شرح 85 فیصد تھی اور آج 70، 72 سال گذر جانے کے باوجود ہم روڈ سے نیچے ہی ہیں۔ پاکستان ابھی بھی بڑی ناخواندہ لوگوں کی تعداد والا ملک ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین آج بھی 80 فیصد ناخواندہ ہیں۔ 5 سے 7 سال کی عمر کے 4 سے 5 کڑوڑ بچے اسکول سے دور ہیں اور جو پڑھ بھی رہے ہیں ان کی تعلیمی حالت بھی ناخواندہ بچوں سے چندہ مختلف نہیں۔ ہمیں ہرگز نہیں بھولنا چاہیےکہ اگر ہم اپنی بقاء چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو ہر صورت بہتر کرنا ہوگا۔

پاکستان کے پہلے 5 سالہ منصوبے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پرائمری تعلیم یکساں طور پر لازمی کردی جائے گی اور نئے اسکول تعمیر کیے جائیں گے۔ پھر کیا!، کئی 5 سالہ منصوبے بنائے گئے اور درجنوں ایجوکیشن پالیسیاں مرتب کی گئیں۔ گو ان میں اچھے اور مفید اقدامات کی نشاندہی تو کی گئی اور عملہ کچھ خاص نہ بن پائی۔ پاکستان کی تعلیم نظام کی بربادی کے اصل مجرم سیاست دان ہیں جنھوں نے اپنی سیاست چمکانے کے چکر میں اپنی قوم کے بچوں کا مستقبل نااہل اساتذہ کے ہاتھوں میں دے دیا۔ اس ملک مین جہاں ہر چیز کا نمبر دو موجود ہے۔ مارکیٹ سے کوئی شے خریدنے جائیں تو دوکاندار بڑی ڈھٹائی سے پوچھتا ہے ایک نمبر چاہے یا دو نمبر!اسی طرح ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کے بھی کئی نمبر ہیں۔ انتہائی درجہ کے مہینگے پرائیویٹ اسکول، کیڈٹ کالج، نسبط" کچھ بہتر پرائیویٹ اسکول، کم درجہ کے پرائیویٹ اسکول اور گورنمنٹ اسکولز۔ یہ سب نمبر ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر قوم کا مستقبل تراش رہے ہیں۔

1947 سے لے کر 2021 تک ہم ایک یکساں تعلیمی نظام ہی نہیں بنا پائے۔ اس کی وجہ قطعا "یہ نہیں کہ ہم میں قابلیت نہیں اور کام کا سلیقہ نہیں۔ آتا سب کچھ ہے پر عملہ کرنا کچھ نہیں چاہتے۔ اس کی اصل وجہ ملک کے کرتا دھرتاہے جو نہیں چاہتے کہ یکساں نظام ہو اگر ایسا ہو گیا تو ہو سکتا ہے غریب بچے ان کے بچوں سے قابلیت میں بہتر ہو جائیں اور ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنےکے قابل ہوجائیں۔ یہ تو انھیں کسی صورت قبول نہیں۔ چلو ہمارے نصیب میں یہ لنگڑا لولہ نظام ہی صیحیح اس کے چند بڑے بڑے نقائص کو تو دور کیا جاسکتا ہے اور یہ کو ئی اتنا بھی مشکل کام نہیں۔ دوسری قومیں تعلیم، صحت، لوگوں کی فلاح و بہبود کو اول کی ترجیح پررکھتی ہیں۔ اور ہم اس کو اپنی آخری ترجیح گردانتے ہیں یہ ہے بنیادی فرق سوچ کا۔

2.5فیصد تعلیمی بجٹ مختس کرکے حکومتیں سمجھتی ہیں کہ انھوں نے انقلابی اقدامات کر ڈالے ہیں حالانکہ ایک فلاحی ریاست کا مقصد ہی یہ ہے کہ تمام بنیادی سہولیات عوام کو باآسانی مہیا ہوں۔

جہاں ہم کھڑے ہیں اس سے آگے اب بس اندھیرا ہی تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے جو پچھلے 72 سالوں سے غصب کیا جا رہا ہے۔ اب تعلیمی طور پر ہے۔ باقی قومیں اپنا مستقبل تاب ناک نبانے کے لیے اپنی نئی نسل کی تعلیم تربیت اچھے اور با احسن طریقہ پر سر انجام دیتی ہیں اور ہم یہاں اپنی سیاسی دوکانداری چلانے کے لئے اپنی نئی نسل کی قربانی دیتے ہیں۔ اپنے ووٹ پکے کرنے کے چکر میں جاہل اور گوار ٹیچرز کی تقرری عمل میں لاتے ہیں۔ تعلیمی نظام کے نقائص کی اگر بات کریں تو چند اور اہم مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ تعلیم بجٹ جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے حل کی کوشش کرنا ہوگی۔ اسکولوں کی تعداد بچوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اس کا صدباب کرنا ہو گا۔ اسکول مینیجمینٹ کا شدید فقدان ہے۔ اساتذہ کی سلیکشن ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ چند مسائل ہیں اگر ان پر توجہ دی جائے تو نظام کو مکمل طور پر بہتر نہ صحیح تو کچھ حد تک بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ وہ پنجابی کی کہاوت ہے کہ" لاہور دا رستہ تے سارے ہی دسدے نے پر لاہور دا ٹکٹ کوئی نیئں دندا" اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مسائل کا حل نہیں ہوتا۔

جب تک حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی سوچ نہیں بدلے گی اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا۔ کاش انہیں یہ سمجھ آ جائے کہ تعلیم ڈیفینس سے زیادہ اہم ہے۔ ڈیفیس تو تب ہی کیا جا سکے گا اگر قوم بچے گی تو اگر قوم جہالت کے اندھیروں میں ڈوب گئی تو پھر حفاظت کیسی۔ تعلیمی وزیروں، مشیروں، ڈاریکٹروں کی فوج ظفر موج جو پال رکھی ہے اسے سب سے پہلے کھر بھجنے کی ضرورت ہے کیوں کہ انھیں دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ تعلیم کو کیا بہتر کریں گے انھیں تو خود تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔

تعلیم کے شعبے کو مکمل طور پر سیاسی مداخلت سے پاک کر دینا چاہے۔ یہ عمل ایک مستقل قانون کی صورت میں مسلط کرنا ہوگا، پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ اشخاص کو انچارج بناتے ہوئے انھیں تعلیم بہتر کرنے کا ٹاسک دینا چاہئے تاکہ بہتری کی طرف جایا جائے۔ ہر 15 اسکولوں پر ایک ٹرئینر کو ہائر کیا جائے جو باقاعدگی سے ان اسکولوں کےتحقیقی دورے کرے اور وہاں کے اساتذہ کی ٹریئنگ مستقل طور پر سر انجام دے۔ سیاسی بھرتیوں سے معذرت کر لی جائے اور نئی نسل کو ایک کڑھے امتحان سے گزار کر ان کی تقرری عمل میں لائی جائے۔ اسکولوں کی کمی کے حوالے سے حکومت کو پرائیوئٹ اسکول مالکان سے جامع ملاقات کر کے کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ کیوں کہ پرائیوٹ اسکولز اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہیں انھوں نے حکومتی کام میں ہاتھ بٹایا ہے۔ انھیں احساس بھی ہے اور ان میں پوٹینشل بھی ہے کام کرنےکا -