1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. فرار کی راہ

فرار کی راہ

دماغ آج پھر بے ڈھنگی سوچوں میں الجھا لگا، جنہیں اگر سلجھانے کی کوشش کرو تو بندہ خود الجھ جائے۔ آپ لاکھ کوشش کرو جان چھڑانے کی مگر ان سے فرار کا کوئی راستہ نہیں۔

فرار۔۔ جس کی تلاش انسان کو ہمیشہ سے رہی ہے۔ کبھی وہ بے ڈھنگی سوچوں سے فرار چاہتا ہے تو کبھی بے تکے مسئلوں سے۔۔ کبھی ذمہ داریوں سے تو کبھی عہد و پیماں سے۔۔ کبھی رسموں اور بندھنوں سے تو سماج اور روایتوں سے۔۔

اس مقصد کے حصول کےلیے کبھی وہ باغی بنا تو کبھی سادھو، کبھی آقا تو کبھی غلام۔۔

مگر یہ سب خود کو جانے بغیر، سمجھے بغیر کہاں ممکن ہے اور یہی سب سے مشکل کام ہے۔۔ پھر اندر اٹھنے والے سوالوں کے جواب تلاش کرنا، انہیں کھوجنا، بہت ہی جھمیلے ہیں۔

آج کا انسان خود سے، حالات سے ہر چیز سے فرار چاہتا ہے۔۔ اس سے غرض سے اس نے طرح طرح کے عجیب و غریب مشاغل اپنا لیے۔۔ کہیں آسمان کی اونچائیوں کو ہمراز بنایا تو پانی کی گہرائیوں کو۔۔ کہیں مشینوں سے دل بہلایا تو کہیں پرزوں سے دل لگایا۔۔

ایجادات ہوئیں۔ نئے نئے عجائب متعارف کروائے گئے مگر افاقہ ندارد۔ اندر کچھ فرق رو پذیر ہی نہیں ہوا۔۔ اس سے جان چھڑانے کی غرض سے وہ خود سے اور دور جانے لگا۔ دماغوں پر تالے لگانا بہتر جانا تاکہ اسے سوچنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑی اور وہ آرام سے آرام کرے۔

اب اس نے معاملات سلجھانے کی بجائے انہیں ادھورا چھوڑ دینا بہتر جانا۔ دوسری طرف کوئی اسے سمجھنے کو بھی تیار نہیں اور نہ ہی وہ انہیں سمجھنا چاہتا ہے۔۔ یہاں اب ہر ایک کو بس سمجھانا ہے۔۔ وہ بھی دوسروں کو

اب دھیرے دھیرے انسان محفلوں میں مذہب اور سیاست پر بات کرنے سے بھی ڈرنے لگا کہیں اختلافات کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔۔ لوگ اس سے لڑنا نہ شروع کر دیں۔۔ اب وہ سب اپنے اندر ہی دبانے لگا۔۔ صحیح غلط سب ختم ہونے لگا۔۔ ایک نظریے سے سبھی ٹھیک تھے اور ایک نظریے سے سبھی غلط۔۔ بیچ کا کوئی نظریے کبھی ملا ہی نہیں۔۔

اِب اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند ایک نے سمجھے بغیر مذہب اور سیاست سکھانا شروع کر دیا۔۔

اور آج دونوں جگہوں پر انہیں کا راج ہے۔۔

جو خود کو تھوڑا سیانا سمجھتے تھے انہوں اپنا رستہ ناپنے میں ہی بھلائی جانی۔۔ جس نے اوپر والوں کو اور چھوٹ مل گئی۔ وہ جو مرضی کریں، جہاں مرضی دندناتے پھریں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔

اور جو بھولے بھالے لوگ تھے انہوں نے کسی ایک کا جھنڈا پکڑ لیا اور اسی کے پیچھے آنکھیں بند کیے چلنا شروع کر دیا۔

پھر جب اپنے ہی جیسے انسانوں کو سمجھنا مشکل ٹھہرا تو انسان سے دوری بنائی اور جانوروں کو گھر لانا شروع کر دیا۔

تنہائی نے ستایا تو مشینوں نے ساتھ نبھایا۔۔ کبھی ٹی وی لگایا تو کبھی کھایا پیا۔۔

جب اپنے مسئلے نہیں سلجھے تو دوسروں کے مسائل حل کرنے کا ایکسپرٹ بن گیا۔ اب ہر کوئی مسائل حل کر رہا ہے مگر دوسروں کے۔۔

تو کوئی دوسروں کو دولت کے باغ دکھا رہا ہے تو کوئی کامیابی اور حوشخالی کے مگر اندر سے سب خالی ہے۔۔

بالکل خالی شیشیوں کی طرح جنہیں کبھی کوئی اچھال کر ادھر پھینکتا ہے تو کبھی اُدھر مگر وہ اچھلتی رہتی ہیں۔۔ خالی کھوکھے ہیں۔

اور جنہیں کرنے کو کچھ نہ ملا تو انہوں نے بے تکے مسئلوں میں پڑ کر تقسیم شروع کر دی۔

مگر اندر والا مسئلہ ویسا کا ویسا ہے، حل بھی کیسے ہو جب انسان خود سے بھاگ رہا ہو۔۔

اسماء طارق

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔