1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. بابا جیونا/
  4. دختر حبیب جالب

دختر حبیب جالب

2011 سے شروع ہوکر 2018 تک یہ وہ عرصہ ہے جب ہماری زندگی میں ناقابل یقین تبدیلیاں رونماء ہوئیں۔ درد احساس اداسی تشنگی اور تنہاء رہنے کی خواہش، ان تمام نعمتوں نے ہمارے دل کی بنجر زمین پہ بارشوں کے موسم میں صحرائی ٹیلوں پہ اگتی سفید دودھیا خودرو کھمبیوں کی طرح سر نکالنا شروع کیا۔ ہم غالب، فیض، منٹو اور احسان دانش صاحب جیسی تاریخی شخصیات سے کچھ کچھ شناسا ہوۓ۔ اس نو عمری میں نیند کی گہری وادیوں میں خوبرو حسیناؤں کے دلفریب بھٹکا دینے والے سپنوں کی جگہ ہم اپنے خوابوں میں انور مسعود صاحب سے فیض یاب ہوۓ۔ منی بیگم کی آواز کے سحر میں گرفتار ہونا شروع ہوۓ۔ پٹھانے خاں کی کافیوں کو سمجھنے کے چکر میں پڑ گئے۔

بھلا ہو اس مہربان ہستی کا جو ان عظیم لوگوں کے فن کی طرف مائل کر کے خود ناجانے دنیا کی کون سی رنگینیوں میں کھو گئی پلٹ کے دیکھنا اورلوٹ آنا بھول گئی۔ بہر حال قصور ہمارا ہی تھا۔ رات کا مسافر چاند ہماری کُٹیا کی چھت پہ کیا چمکا ہم اسے اپنا ہی سمجھ بیٹھے۔ ہم بھول گئے تھے کہ جب ہر سو کامیابیاں دن کے اجالوں کی طرح اپنے پر پھیلائیں گی تو یہ خوبصورت چاند دن کی چکا چوند کرنوں کے پیچھے اپنا منہ چھپا لے گا۔ ویسے بھی اس حقیقت سے کیسے منہ پھیرا جا سکتا ہے کہ جب بھی رحم آیا زمین کے چاک اور پیاسے سینے پہ بلندیوں سے دَیا کی گھٹائیں برسیں نگوڑی زمین نے اپنی وفاؤں کا ثبوت دینے خاطر اگر کبھی اپنا کلیجہ نکال کر بھی آسمان کی طرف پھینکا تو واپس زمین کے منہ پہ ایسے گرا جیسے کوئی خود غرض انسان کسی باوفا محبوبہ کی وفا تکبر سے اس کے منہ پہ مار دے۔ جب بھی لپک کے زمین کا ہاتھ تھاما آسمان نے ہی تھاما۔ زمین ازل سے آسمان کے رحم و کرم پہ ہی آباد ہے۔ یہ آسمان جب چاہے اپنی بے رخی سے سرسبز و شاداب زمین کو کسی وِدوا کی سونی مانگ کی طرح ویران اور بنجر کردے۔

ان سات سالوں میں ہم نے نہ صرف ان ادب کے افق پہ چمکتے درخشاں روشن ستاروں کی کرنوں کو دل کی پاکیزہ دھرتی پہ مرکوز پایا بلکہ ان کو پڑھنا شروع کیا اور اپنی طبیعت کو لکھنے کی طرف بھی مائل پایا۔

ہر تحریر لکھنے کے بعد جب داد تحسین کے حصول کو ہم نے اپنی زوجہ محترمہ کو کوئی بھی اپنی کاوش دکھائی تو ہر بار انھوں نے یہ ہی فرمایا نوید صاحب پلیز تخیلات کی دنیا سے نکل آئیں۔ آپ کا شعر و شاعری کا افسانہ اور ناول نگاری کا شوق میرے لیے اور ہمارے بچوں کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ اپنی نوکری پہ دھیان دیں۔ کل پورے چھے گھنٹے آپ نے مرزا غالب کی زندگی پہ بنی فلم دیکھ کر ضائع کیے اور دیکھا کیا مفلسی اور محرومیوں کا شکار شراب کے نشے میں ڈوبا ہوا رقاصہ کے عشق میں مبتلاء خود کو نواب کہلوانے والا مقروض شخص اور اس کی غربت کو سہتی ہوئی اس کی مجبور بیوی۔ آج آپ نے منٹو کی زندگی پہ بنی فلم ڈاؤن لوڈ کرلی ہے۔ آخر آپ چاہتے کیا ہیں۔ میں مانتی ہوں یہ بہت الگ تھلگ لوگ تھے جنھوں نے ہر مصیبت کا بہادری سے مقابلہ کیا یہ لوگ بڑے بڑے پیغام چھوڑ گئے لیکن نوید صاحب ان کا صرف نام ہی بچا ہے اثاثہ کوئی نہیں۔

کل کی خبروں میں حبیب جالب کی بیٹی کا حال سنا آپ نے وہ کریم چلاتی ہے یعنی ڈرائیور ہے۔ حبیب جالب کو کون نہیں جانتا کتنے بڑے بڑے لیڈر اور حکمران کیسے سینہ ٹھونک کر ان کا کلام پڑھتے ہیں مگر کیا کوئی یہ جان کر شرم سے مرا حبیب جالب کے اشعار کو اپنی تقاریر کا حصہ بنانے والوں ذرا بھی احساس ہوا کہ اتنے بڑے شاعر کی بیٹی کس قدر مفلسی اور مصائب کا شکار ہے۔ نہیں بالکل نہیں بلکہ سب نے ایک خبر سمجھ کر اس کی بے بسی کی داستان کو پڑھا ہوگا اور اس کا ذمہ دار معاشرے کی بے حسی کو ٹھرایا ہوگا۔ حبیب جالب صاحب کے قلم کی نوک سے اشک بن کر اور بغاوت کا علم تھامے ٹپکنے والے الفاظ کو تو ہر پڑھنے سننے والا واہ واہ کرتے ہوۓ پڑھتا اور سنتا ہے کیا کسی نے جالب صاحب کے جسم پہ لگے زخموں کا بھی شمار کیا۔ کیا کسی نے ان کے بدن اور جگر کے ٹکڑے ان کی بیٹی کی بھی خبر گیری کی۔ نہیں بالکل نہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور شعراء کے کلام سے لوگ اپنے مطلب کے لفظ چنتے ہیں لیکن ان تحریروں کے پیچھے غزلوں کی صورت بہتے اشکوں کے پیچھے چھپے درد اور محرومیوں کو کوئی نہیں سمجھتا۔ جون ایلیا ایک عہد کا نام ہے لیکن مجھے بتائیے اس کے نام کے علاوہ بھی اس کا کچھ ہے اس دنیا میں۔ ساغر صدیقی کو کون نہیں جانتا ساری جوانی اس نے داتا دربار کے آس پاس گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں پہ گزار دی۔ گندے پانی کے جوہڑ میں کھلے کنول کی طرح اس نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا بد بخت معاشرے نے اس کی خوبصورتی کو نوچ نوچ کر بیچا اور اپنے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کیا مگر اس کو بدلے میں سسک سسک کر مرنے کے علاوہ کچھ نہ ملا یہ دنیا انسانوں کے روپ میں خطرناک درندوں کی آماج گاہ ہے نوید صاحب فطرت کے حسن خوبصورتی کو نوچ نوچ کر کھانا اپنی بھوک مٹانا ان کی موروثی بیماری ہے اس قوم کے فتوہ گروں کی منشاء کے عین مطابق نہیں لکھو گے تو غالب کی طرح جیل کی صعوبتیں اٹھاؤ گے۔ منٹو کی طرح جسم خور دانشوروں کو ان کے چہرے دکھاؤ گے تو وحشیاؤں کے کوٹھوں پہ بیٹھ کر منٹو کی تحریروں کو لغو لٹریچر کہنے والے آپ کو بھی پاگل کہہ کر پاگل خانے بھیج دیں گے۔

بابا جیونا

بابا جیونا  جن کا اصل نام نوید حسین ہے ایک سرکاری ملازم اور ایک بہترین لکھاری ہیں۔