1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. بابا جیونا/
  4. تھانے دار سے سیکیورٹی گارڈ تک

تھانے دار سے سیکیورٹی گارڈ تک

چاچا رحمت ہمارا گارد انچارج تھا۔ وہ اپنے رہن سہن اور سادگی سے بالکل بھی سب انسپکٹر نہیں لگتا تھا۔ سر پہ امامہ شریف چہرے پہ خوبصورت داڑھی پیشانی پہ سجدوں کے واضح نشان ہاتھ میں ایک خوبصورت منکوں والی چھوٹی سی تسبیح زبان پہ ہر وقت سبحان اللہ اور استغفراللہ کا ورد پانچ وقت کا نمازی تہجد گزار سب انسپکٹر رحمت علی۔ جس گارد پہ ہم تعینات تھے ہمیں اپنا تین وقت کا کھانا خود پکانا پڑتا تھا سالن دال سبزی ہم خود بناتے اور روٹیاں قریبی ہوٹل سے لیتے۔ اس طرح ہمیں گھر جیسا کھانا بھی مل جاتا اور ماہانہ خرچ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا۔ چاچا رحمت سبزی بناتا برتن بھی دھو لیا کرتا ہمارے لاکھ منع کرنے کے باوجود چاچا رحمت ہر کام میں ہمارا ہاتھ بھی بٹاتا اور اپنے حصے کے پیسے بھی سب سے پہلے دیا کرتا۔
چاچا رحمت کے پانچ بچے تھے تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔ دونوں بیٹے زیر تعلیم تھے اور بیٹیا ں پانچویں جماعت تک پڑھنے کے بعد اپنی اماں کے ساتھ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ گارد پہ کسی بھی جوان کو کوئی پریشانی ہوتی چاچا رحمت فوراََ اللہ کی رحمت کی طرح اس کی مدد کرنے کو تیار ہوجاتا۔ چاچا رحمت اگر کسی جوان کو تھوڑے بہت پیسے ادھار دے دیتا تو کبھی واپسی کا تقاضا نہ کرتا۔ پولیس کی گاردات پہ زیادہ تر حوالدار یا اے ایس آئی ہی انچارج ہوا کرتے ہیں مگر چاچا رحمت ہمیشہ گاردات پہ ہی ڈیوٹی کرنے کو ترجیح دیتا۔ ایک دفعہ میرے پوچھنے پہ چاچا نے بتایا کہ بیٹا میں نے اپنی ساری نوکری گاردات ایلیٹ فورس سپیشل برانچ اور بطور ویپن انسٹرکٹر پولیس کے ٹریننگ سنٹروں میں ہی گزار دی محکمہ پولیس کی متذکرہ بالا برانچوں میں فرائض منصبی ادا کرنے والے افسران و جوان بالکل صاف شفاف ڈیوٹی کرتے ہیں اس لیے بیٹا رشوت لینا میرے بس کی بات نہیں۔ میں کیسے کسی امیر زادے یا رئیس کو اجازت دوں کہ وہ میری قیمت لگائے۔ میرا ضمیر میری انسانیت خرید لے چند روپوں کی خاطر جب اشرف المخلوقات انسان اپنا آپ بیچ دیتا ہے تو اس کے بنانے والے پہ کیا گزرتی ہوگی جو ستر ماﺅں سے بھی زیادہ اپنی اس مخلوق سے پیار کرتا ہے۔
بیٹا جب میں حوالدار تھا تو ایک دفعہ میں ایک ناکے پہ کھڑا تھا۔ میں نے ایک ٹرک والے کو روکا جو اوور لوڈڈ تھا جب میں نے اس کا چالان کرنا چاہا تو اس نے مجھے پچاس روپے رشوت دی اس وقت پچاس روپے کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی جب میں نے پچاس روپے پکڑ لیے اور اس ٹرک والے کو جانے کی اجازت دی تو اس ٹرک والے نے مجھے کہا صاب جی کیا اب یہ ٹرک سے باہر نکلا ہوا اوور لوڈ کہیں اند ر چلا گیا ہے۔ تم لوگوں نے بھی ایک دن اللہ کے پاس جانا ہے کچھ تو خیال کیا کرو تنخواہ نہیں لیتے تم۔ کیوں موت کو بھول گئے ہو۔ پچاس روپے قیامت والے دن میں تم سے وصول کروں گا۔ بس بیٹا اس دن کے بعد میں نے کبھی رشوت نہیں لی میں نے سوچا کہ ایک ان پڑھ ٹرک ڈرائیور کو اللہ قبر قیامت موت سب یاد ہے اور میں کتنا غافل ہوں سب جانتے ہوئے بھی اپنی موت سے غافل ہوں۔ میں نے اللہ سے معافی مانگی اور پھر کبھی رشوت نہ لینے کا عہد کر لیا جس پہ آج تک قاتم ہوں اور اللہ مجھے ثابت قدم رکھے آمین۔ میں نے پوری زندگی اپنی حلال کی تنخواہ پہ گزار دی مجھے نہیں یاد کہ میری کبھی کوئی ضرورت پوری نہ ہوئی ہو۔ بیٹا اس حلا ل میں بڑی برکت ہے۔ تھوڑی مشکل ہوتی ہے مگر سکون بہت ہے۔ ویسے بھی جس راہ میں مشکلیں دشواریاں نہ ہوں یقینا وہ راہ غلط ہے بیٹا۔
آج چاچا رحمت کو ریٹائر ہوئے تقریباََ دو سال ہونے کو ہیں۔ میں اکثر چاہتے ہوئے بھی دنیاوی مصروفیات کے باعث چاچا رحمت سے کبھی ملنے نہ جاسکا تھا۔ چند دن پہلے چاچا رحمت کا فون آیا اور انتہائی مایوس آواز میں کہنے لگے بیٹا کبھی ملنے ہی آجایا کرو اپنے چاچا رحمت کو بھول گئے ہو۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی میں نے چھٹی والے دن چاچا سے ملنے جانے کا عہد کرلیا۔ میں جب چاچا رحمت سے ملنے ان کے گھر گیا تو پتہ چلا کہ وہ پچھلے دو تین ماہ سے شہر کے ایک بنک میں بطور سیکیورٹی گارڈ ڈیوٹی کر رہے ہیں۔
مجھے بالکل یقین نہیں آرہا تھا میں سیدھا بنک پہنچا دیکھا تو چاچا رحمت بنک کے باہر اینٹوں کے سہارے کھڑی کی ہوئی کرسی پہ بیٹھے ناجانے کون سی خیالوں کی گتھیاں سلجھا رہے تھے۔ انھیں احساس ہی نہ ہو ا کہ میں ان کے پاس کھڑا ہوں۔ جب میں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے السلام وعلیکم کہا تو وہ کتنی دیر حیرت سے میری طرف دیکھتے رہے اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے آﺅ بیٹا یاد آہی گئی اپنے چاچا رحمت کی۔ میں نے پوچھا یہ سب کیا ہے آپ اور سیکیورٹی گارڈ۔ تو وہ کہنے لگے بیٹا ہم پہلے بھی تو سیکیورٹی گارڈ ہی تھے بس وردی اور کرسی تبدیل ہوئی ہے یا ڈیوٹی کے اوقات بدل گئے ہیں۔ میں نے کہا چاچا جو آپ کو ریٹائر منٹ کے پیسے ملے تھے اور پھر جو آپ کی پنشن آتی ہے وہ آپ کے لیے تو کافی تھی پھر یہ نوکری کیوں۔ کہنے لگے بیٹا بچوں کی شادیاں کرنی تھیں ماڑا چنگا گھر بنایا تین بچوں کی شادیاں کیں۔ اس مہنگے دور میں گھر بنانا پھر تین شادیاں ایک ساتھ کرنا کوئی آسان کام تھوڑی تھا بس میں تھوڑا سا مقروض ہوگیا تھا وہ قرض ادا کرنا تھا سوچا گھر فارغ رہ کر کیا کروں گا پنشن کے ساتھ آٹھ دس ہزار یہاں سے بھی تنخواہ لے رہا ہوں گزارا اچھا ہو رہا ہے۔ بس قرض اتر جائے پھر یہ نوکری چھوڑ دوں گا۔
تین بچوں کی شادیاں کی ہیں وہ اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے ہیں باقی دوبچوں کے لیے بھی اللہ نیک وسائل پیدا کرے گا انشاءاللہ۔ میں نے کہا لیکن چاچا ایک سب انسپکٹر ریٹائرڈ افسر اب سیکیورٹی گارڈ نہیں چاچا یہ تو ظلم ہے۔ کہنے لگے اور کوئی کام بھی تو نہیں آتا کیا کروں کوئی کاروبار کرنے کو پیسہ بھی نہیں ہے۔ بیٹا جو پولیس والے رشوت نہیں لیتے نہ ان کا یہی انجام ہے۔ بیٹا اس معاشرے میں ایمانداری سے نوکری کرنا حلال رزق پہ گزر بسر کرنا کافی مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ہم غریب لوگ تھے کوئی زمین جائداد نہیں تھی محض پولیس کی نوکری تھی وہ پوری ہوگئی تو بیٹا اب زندہ تو رہنا ہے۔
لوگوں نے سب انسپکٹر سمجھ کر قرض دیا تھا انھیں کیا پتہ کہ ایک ایماندار سب انسپکٹر اپنی دنیاوی زندگی ایک رشوت خور کانسٹیبل سے بھی بری گزارتا ہے۔ میں نے کہا بالکل چاچا پچھلے دنوں سندھ پولیس کے ایک حاضر سروس انسپکٹر کو دیکھا تھا جو وردی پہنے فٹ پاتھ پہ بیٹھا اپنے بیٹے کے علاج کے لیے رو رو کر سندھ حکومت سے اپنے افسران سے مدد کی اپیل کر رہا تھا۔ اپنی تنخواہیں ایڈوانس مانگ رہا تھا۔
چاچا رحمت کہنے لگے بیٹا ہر کوئی بہتری کی بات کرتا ہے۔ ہر کوئی پولیس میں تبدیلی کی بات کرتا ہے کوئی وردی بدل دیتا ہے کوئی ٹریننگ میں نت نئے تجربے کرتا ہے کوئی پولیس افسران کو جدید سے جدید اسلحہ فراہم کرنے کی بات کرتا ہے۔ کوئی پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کی بات کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے پولیس والوں کو ان کے متعلقہ تھانوں میں تعینات نہ کیا جائے۔ کوئی نئی گاڑیوں اور تھانوں کی تزئین و آرائش کی بات کرتا ہے۔ ٹھیک ہے یہ سب بھی بہت ضروری ہے لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ پولیس کے لیے ہسپتال بنائے جائیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ پولیس والوں کے بچوں کے لیے تعلیم سستی کی جائے۔ شہداء پولیس اور دوران سروس فوت ہوجانے والے پولیس افسران کی بیواﺅں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ دستکاری سکول بنائے جائیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ان کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافے کیے جائیں۔
بیٹا جب انصاف مہیا کرنے والوں کے گھروں میں ضرورتیں منہ کھول کے کھڑی ہوں انصاف دینے والے مقروض ہوں تو انصاف کی امید کرنا کسی خیال چوہدری کے خیال کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کسی بہتری کی امید ایک خوش فہمی ہی ہو سکتی ہے۔ پھر چاچا مجھے پریشان اور مایوس دیکھ کر مجھے حوصلہ دینے لگے کہنے لگے بیٹا ایک بات یاد رکھنا یہ دنیاوی زندگی عارضی اور جلد ختم ہوجانے والی ہے اس فانی زندگی کے لیے اپنی آخرت والی زندگی خراب مت کرنا۔ بے شک میں مفلسی کی زندگی گزار رہا ہوں لیکن میرے پاس جو بھی ہے وہ جائز کمائی کا ہے۔ میرے گھر کی دیواریں مجھے کاٹنے کو نہیں دوڑتیں۔ میں نیند کی گولی کھا کر نہیں سوتا۔ مجھے بے گناہوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ جب کوئی سرکاری ملازم رشوت خور ی خرد برد سے پیسہ اکٹھا کر کے بنائے پتھر کے گھر کو ریشمی پردوں اور مہنگے فانوس لگا کر سجاتا ہے تو پھر وہ اس گھر میں کبھی سکون کی نیند نہیں سو تا۔ مجھے حیرت ہے رشوت خور سرکاری افسران ساری جوانی حرام اکٹھا کرکے مہنگے گھر بناتے ہیں جب ان میں رہنے کا وقت آتا ہے تو بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں پھر ان کے بچے ان کی چارپائی گیراج میں یا نوکروں کے گوارٹروں میں اس لیے پہنچا دیتے ہیں کہ بابا کھانسی کرتا ہے بلغم تھوکتا ہے تو فرش گندا ہوتا ہے یہ ہے حرام کمانے والوں کا انجام۔ بیٹا ضرورتیں اللہ پتھر میں رہنے والے کیڑے کی بھی پوری کرتا ہے لیکن خواہشیں تخت نشیں سلطانوں کی بھی ادھوری رہ جایا کرتی ہیں۔ چاچا رحمت کہنے لگے چلو اب گھر چلتے ہیں میری ڈیوٹی ختم ہونے والی ہے۔ تمھیں کھانا کھائے بنا نہیں جانے دوں گا لیکن میں نے اجازت لی اور اس نظام کو جس نے چاچا رحمت جیسے ایماندار افسر کو ریٹائرمنٹ کے بعد سیکیورٹی گارڈ بنا دیا تھا کوستے ہوئے چنگ چی رکشے پہ بیٹھا اور گھر کے لیے روانہ ہوگیا۔

بابا جیونا

بابا جیونا  جن کا اصل نام نوید حسین ہے ایک سرکاری ملازم اور ایک بہترین لکھاری ہیں۔