1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. بابا جیونا/
  4. غلاظت نئے دور کی

غلاظت نئے دور کی

یورپ میں نہانے کو کفر سمجھا جاتا تھا۔ یورپ کے لوگوں سے سخت بدبو آتی تھی۔ روس کے بادشاہ قیصر کی جانب سے فرانس کے بادشاہ لوئیس کے پاس بھیجے گئے نمائندے نے کہا ہے کہ فرانس کے بادشاہ کی بدبو کسی بھی درندے کی بدبو سے زیادہ متعفن ہے۔ اس کی ایک لونڈی تھی جس کا نام مونٹیاسیام تھا جو بادشاہ کی بدبو سے بچنے کے لیے اپنے اوپر خوشبو ڈالتی تھی۔

دوسری طرف خود روسی بھی صفائی پسند نہیں کرتے تھے۔ مشہور سیاح ابن فضلان نے لکھا ہے کہ روس کا بادشاہ قیصر پیشاب آنے پر مہمانوں کے سامنے ہی کھڑے کھڑے شاہی محل کی دیوار پر پیشاب کرتاہے۔ چھوٹے اور بڑے دونوں پیشاب کے بعد کوئی استنجا نہیں کرتا۔ ایسی گندی مخلوق میں نے نہیں دیکھی۔ اندلس میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والی ملکہ ایزا بیلا ساری زندگی میں صرف دو بار نہائی۔ اس نے مسلمانوں کے بنائے ہوئے تمام حمام گرادیے۔ اسپین کے بادشاہ فلپ دوم نے اپنے ملک میں نہانے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اس کی بیٹی ایزا بیل دوم نے قسم کھائی تھی کہ شہروں کا محاصرہ ختم ہونے تک وہ اپنا اندرونی لباس بھی تبدیل نہیں کرے گی اور محا صرہ ختم ہونے میں تین سال لگے۔ اسی غلاظت اور گندگی کے سبب وہ مر گئی تھی۔

یہ عوام کے نہیں بلکہ یورپ کے حکمرانوں کے واقعات ہیں جو تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں۔ جب ہمارے سیاح کتابیں لکھ رہے تھے جب ہمارے سائنسدان نظام شمسی پر تحقیق کر رہے تھے تو یورپ کے بادشاہ نہانے کو کفر اور گناہ قرار دے کر لوگوں کو قتل کر رہے تھے۔ پھر ہمیں ان کے بادشاہوں جیسے حکمران ملے۔

جب لندن اور پیرس کی آبادیاں 30 اور 40 ہزار تھیں اس وقت اسلامی شہروں کی آبادیاں ایک ایک ملین ہوا کرتی تھیں۔ فرنچ پرفیوم بہت مشہور ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ پرفیوم لگائے بغیر پیرس کی گلیوں میں گھومنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوا کرتا تھا۔ ریڈ انڈین جب یورپین سے جنگ کرتے تو گلاب کے پھول اپنے نتھنوں میں ٹھونس لیتے کیونکہ یورپیوں کی تلوار سے زیادہ تیز اور خطرناک وہ بدبو ہوتی جو ان کے جسم سے اٹھ رہی ہوتی تھی۔

فرانسیسی مورخ دریبار کہتا ہے کہ ہم یورپ والے مسلمانوں کے مقروض ہیں کیونکہ مسلمانوں نے اہل یورپ کو صفائی ستھرائی غلاظت بدبو میں فرق اور تمیز کرنا سکھایا انسانوں کی طرح جینے کا ڈھنگ سکھایا نہانا، مسواک (برش) کرنا سکھایا۔ جسم کو صا ف ستھرا کر کے ڈھانپنا ہمیں مسلمانوں نے سکھایا۔ ہم جب ننگے دھڑنگے تعفن زدہ درندوں والی زندگی گذار رہے تھے تو اس وقت مسلمان اپنے کپڑوں کو یا قوت، زمرد، اور مرجان سے سجاتے تھے۔ جب یورپی کلیسا نہانے کو کفر اور جرم قرار دے رہے تھے اس وقت مسلمانوں کے شہر قرطبہ میں لگ بھگ تین سو کے قریب عوامی حمام تھے۔

موجودہ دور میں اگر ہم دیکھیں تو یورپ کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں۔ آج جب یورپ والے ڈرون بنا رہے ہیں نت نئی ایجادات سے دنیا کو حیران کر رہے ہیں وہاں نفیس پہناوے پہنے بظاہر ہماری پاکیزہ روحیں ایک ایسی غلاظت میں لتھڑی ہوئی ہیں جسے کرپشن اور رشوت خوری کہتے ہیں۔ شاید آج بھی ہم اہل یورپ سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہیں لیکن ہماری اندرونی کیفیت فرانس کے اس بادشاہ سے بھی غلیظ ہے جس کی لونڈی اس کی بدبو کی وجہ سے اپنے اوپر خوشبو ڈالتی تھی۔ ہمارے حالات یہ ہیں کہ ہم میں سے کوئی کسی خوبصورت ماڈل گرل کی اداﺅں کے پیچھے اپنی مکروہ کمائی چھپانا چاہتا ہے۔ کوئی یورپ میں بیٹھ کے ہمارے پیارے ملک کی سالمیت وقار کو نقصان پہنچانے کے لیے ہمارے ازلی دشمن سے گٹھ جوڑ کر کے ملک کی بھولی بھالی عوام کو بغاوت کے دھکتے تنور میں ڈال دینا چاہتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں پہ ایسے ایسے غلیظ اور باعث شرم الزام لگائے جا رہے ہیں کہ انسانیت شرما جائے۔ پانی کے منصوبوں میں کرپشن۔ صحت کے منصوبوں میں خرد برد۔ جعلی ادویات بنانے کے الزامات۔ مضر صحت دودھ بنانے کی فیکٹریاں۔ مذہب کی آڑ میں سیاسی اور ذاتی مفادات کا حصول سرکاری زمینوں پلاٹس پہ قبضے۔ ملک کا پیسہ چوری کرکے بیرون ملک جائیدادیں بنانے کا انکشاف۔ اگر یہ الزام سچ ہیں تو ان کی اس غلیظ سوچ کے سامنے دنیا کی تمام غلاظتیں کوئی معانی نہیں رکھتیں۔

اپنی ان غلاظتوں کی وجہ سے دنیا میں ہم اس قدر رسوا ہو چکے ہیں کہ مودی جیسا جاہل اور مکروہ انسان بھی ہمیں حقیر سمجھتا ہے۔ انڈیا کے ٹی وی پروگرام جنتا کی عدالت میں مودی ہمیں سبق سکھانے کی بات کرتا ہے۔ جذبہ خیر سگالی کے تحت کرتار پور راہ داری کے کھولنے کے ہمارے مثبت اقدام کو ہندوستانی میڈیا سازش قرار دے رہا ہے۔ حالانکہ پوری دنیا جاتنی ہے کہ انڈیا ایک دہشت گرد مکار اور احساس کمتری کا شکار ملک ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کا منفی پراپیگنڈہ ہو یا گجرات فسادات کی شازش ان سب دہشت گر عزائم کے وقوع پذیر ہونے کے پیچھے اپنا ہندوستانی حکومت اور اپنی فوج کا ہاتھ مودی تسلیم کرتا ہے۔ اسے کوئی ڈر خوف نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ بس ہمیں ا پنے ذاتی مفادات پیارے ہیں۔ ہماری خوداری کا یہ عالم ہے کہ اپنے ملک میں تو ہم ہیلمٹ پہننا، سیٹ بیلٹ باندھنا، لائن میں لگنا توہین سمجھتے ہیں لیکن تلاشی کے نام پہ یورپ کے ہوائی اڈوں پہ ہمیں ننگا بھی کر دیا جائے ہم پھر بھی یورپ جانا چاہتے ہیں۔

اہل یورپ نے اپنی تمام غلاظتیں چاہے اندرونی ہوں یا بیرونی صاف کرنے کا گُر مسلمانوں سے سیکھا آج بھی یورپ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بنائے قانون لاگو ہیں اور ہم تو اپنے آقا سرورِکائنات ﷺ کی تمام تعلیمات کو بھول چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے جھوٹ سے منع فرمایا۔ ملاوٹ سے منع کیا شراب نوشی کو ممنوع قرار دیا ہم نے شراب کے لائیسنس دے رکھے ہیں۔ آپ ﷺ فرمایا اپنی عورتوں کو پردے میں رکھو عورت کو پردے کی پابند رہنے کا حکم دیا عورت کو صفامروہ میں بھی بھاگنے دوڑنے سے منع کیا ہماری عورتیں کرکٹ کے میدانوں کی زینت بن گئی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا کی بد اخلاق ترین وہ عورت ہے جو غیر محرم سے مسکرا کے بات کرے لیکن ہمارا تو شیمپو، دودھ، کریم، چائے کی پتی، بسکٹ، نمکو، یہاں تک کہ کھاد، سپرے، کھل بھی اس وقت تک نہیں بکتا جب تک ناچتی گاتی بے پردہ عورتیں کمرشل میں نظر نہ آجائیں۔ ہمارے معاشرے کے اعلی تعلیم ےافتہ لوگ ان جدید غلاظتوں کی وکالت یہ کہہ کر کرتے نظر آتے ہیں۔ ( اگر معاشرے کے ساتھ چلنا ہے آگے بڑھنا ہے تو یہ سب کرنا پڑے گا)

بابا جیونا

بابا جیونا  جن کا اصل نام نوید حسین ہے ایک سرکاری ملازم اور ایک بہترین لکھاری ہیں۔