1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. باشام باچانی/
  4. خواب (2)

خواب (2)

"آج اشرف صاحب دفتر نہیں آئے؟"دفتر سےکسی نے اشرف صاحب کے گھر فون کی، اور دریافت کیا۔
ہوا یوں کہ جب رات کو سب سورہے تھے، اور پورا محلہ خاموش تھا، محض تاریکی ہر جگہ چھائی ہوئی تھی، گلیاں اور سڑکیں ویران تھیں، اور چوکیدار کے علاوہ کوئی بیدار نہیں تھا، تب اشرف صاحب آج پہلی بار جاگ رہے تھے۔ رات کی خاموشی اور تاریکی کا ڈراؤنا پہلو انہیں سونے نہیں دے رہا تھا۔ اور اگر ان کی آنکھ لگ جاتی تو وہ خوف سے جاگ جاتے، انہیں ایک خواب لگاتار، بار بار، آرہا تھا۔ اس حالت میں وہ اپنے ہی گھر میں چہل قدمی کرنے لگے۔ مریم کی آنکھ اچانک رات کو کھل گئی۔ اس کا حلق خشک تھا، لہذا وہ اپنی پیاس مٹانے کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکلی۔ باہر نکلنے سے پہلے اسے کسی کے چلنے کی آواز آرہی تھی۔ وہ حیران ہوگئی اور ڈرگئی۔
"ضرور کوئی چور ہمارے گھر میں گھس گیا ہوگا۔ "اس نے اپنے آپ سے دل ہی دل میں کہا۔
مریم نے اپنے کمرے کا دروازہ بالکل دھیمی رفتار سے کھولا، اور پھرآہستہ آہستہ چلنے لگی تاکہ اس کی چال سے چور ہوشیار نہ ہوجائے۔ اس نے پھر ڈنڈا اٹھایا اور پھر چور کو ڈھونڈنے لگی۔ چور کے سائے نے اسے چوکنا کردیا۔ جونہی اسے چور نظر آیا اس نے پیچھے سے حملہ کردیا۔ وہ لگاتار چور کو ڈنڈامارتی رہی، حتی کہ چور بیچارا بے ہوش ہوگیا۔
"بے شرم !شرم نہیں آتی؟!کسی کے گھر میں گھسنا اچھی بات ہے؟"وہ چور سے کہنے لگی۔
آپ تو مریم کی آواز سے واقف ہیں(ملاحظہ ہو کہانی کی پچھلی قسط)، جب وہ بولتی ہے تو اسے لاؤڈسپیکر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی آواز پورے گھر میں گونچ اٹھی۔ لہذاجمیلہ صاحبہ اٹھ گئیں، اٹھتے ہی انہوں نے بتی جلائی، اور پھر دیکھنے لگیں کہ ان کی بیٹی مسلسل ان کے شوہر کو مارتی جارہی ہے۔ جیسے بتی چالو ہوئی، مریم کو نظر آیا کہ وہ تو چور کو نہیں بلکہ اپنے والد کو مار رہی ہے۔
"او کمبخت!"جمیلہ صاحبہ نے اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ "یہ کیا کر رہی ہے تو؟اپنے والد کو مار رہی ہے؟شرم نہیں آتی تجھے لڑکی؟"
وہ بھاگے بھاگے اس مقام پر پہنچیں جہاں ان کے شوہر بے ہوش لیٹے ہوئے تھے۔ مریم سے انہوں نے ڈنڈا چھینا اور پھر روتے ہوئے کہنے لگیں:
"جلدی جاؤ، پانی لے آؤ۔ "
مریم باورچی خانے گئی تاکہ پانی لائے، اور سارہ کمرے سے بار نکلی، ابھی اس کی نیند مکمل منقطع نہیں ہوئی تھی۔ وہ جماہی لیتے ہوئے پوچھنے لگی:
"یہ کیا ہورہا ہے، اتنا شور کیوں؟"
گہری نیند میں تھی، اس لیے اسے سب کچھ دھندلا نظر آرہا تھا۔ جب اس کی بینائی مکمل بحال ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی والدہ فرش پر بیٹھی ہیں، اور ان کا والد بے ہوش لیٹا ہوا ہے۔ سارہ رونے لگی، اور پھر چیخی:
"ابو جان!یہ کیا ہوگیا؟امی، یہ کس نے کیا؟"
اتنے میں مریم بھاگتی ہوئی آئی۔ اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا، جو اس نے پھر اپنی والدہ کو دیا۔ سارہ نے اپنا موبائیل فون اٹھایا، اور بغیر تاخیر کے ڈاکٹر امجد کو فون ملایا۔ کیونکہ رات کا وقت تھا ڈاکٹر صاحب بھی مزے کی نیند لے رہے تھے۔ لہذا سارہ مسلسل فون ملاتی رہی۔ بالآخر ڈاکٹر صاحب بیدار ہوئے، انہوں نے اپنی فون اٹھائی اور خواب آلود لہجے میں بولے:
"ہیلو!۔ ۔ ۔ کون بول رہا ہے؟"
"ڈاکٹر صاحب میں سارہ بول رہی ہوں۔ ۔ ۔ "
"بیٹی سارہ!سب خیر تو ہے؟اس وقت یاد کیا تم نے مجھے؟والد صاحب تو ٹھیک ہیں؟"
"نہیں!"یہ کہہ کر سارہ رونے لگی۔
"بیٹی کیا ہوا؟"
اتنے میں مریم نے سارہ سے موبائیل لی اور پھر روتے ہوئے کہنے لگی:
"ڈاکٹر صاحب!جلدی آجائیں!آج رات نجانے کیوں ابو رات کو جاگ گئے، ویسے تو کبھی نہیں جاگتے۔ اندھیرے میں مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا، مجھے لگا کوئی چور ہمارے گھر میں گھس آیا ہے، اور پھر میں نے انہیں مسلسل ڈنڈے مار مار کر بے ہوش کردیا۔ "
مریم اس کے بعد ایسے روئی کہ اس کے لیے بولنا ناممکن ہوگیا۔ سارہ نے اسے گلے لگالیا۔ اور پھر اسے کہنے لگی:
"تمہاری کوئی غلطی نہیں۔ تمہیں علم نہیں تھا۔ "
ڈاکٹر صاحب نے کہا: "میں فوراً آپ کے گھر پہنچتا ہوں۔ "
یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب اٹھے، اور پھر اپنی بیگم کو اطلاع دئے بغیر نکل گئے۔ جلدبازی میں وہ اپنی عینک بھی بھول گئے۔ ان کی دور کی نظر کمزور ہے۔ بیچ راستے میں انہیں یاد آیا کہ چشمہ تو وہ گھر بھول گئے۔ گاڑی چلاتے وقت انہیں بڑی پریشانی پیش آئی، لیکن رات کا وقت تھا، سڑکیں ویران تھیں، لہذا وہ بحفاظت اشرف صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے دروازےپر دستک دی، مریم نے دروازہ کھولا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ان کا سامنا جمیلہ بیگم سے ہوگیا۔
"ڈاکٹر صاحب !انہیں ہوش کیوں نہیں آرہا؟"جمیلہ صاحبہ روتے ہوئے بولیں، ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو خارج ہورہے تھے۔ "ڈاکٹر صاحب!انہیں ٹھیک کردیں، میں اپنے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ "
"بہن !بہن!حوصلہ رکھو۔ "یہ کہہ کر ڈاکٹر نے جمیلہ صاحبہ کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ "سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بے فکر ہوجائیں آپ۔ "
ابھی ڈاکٹر نے اپنا جملہ مکمل کیا تھا کہ اچانک اشرف صاحب جاگ گئے۔ اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے:
"اوف اللہ!یہ درد!"
مریم اور سارہ نے اپنے والد کو گلے لگالیا۔ جمیلہ صاحبہ اس بار خوشی کے عالم میں رونے لگیں۔ ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر اشرف صاحب بولے:
"ارے ڈاکٹر صاحب، آپ یہاں اس وقت کیسے؟"
ڈاکٹر صاحب نے پھر ان کا معائنہ کیا، اور کچھ دوائیں بھی لکھ کر دیں، اور ساتھ ہی احتیاط سے بھی آگا ہ کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے:
"آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ "
یہ کہہ کر انہوں نے اجازت طلب کی۔
جمیلہ صاحبہ نے انہیں روکا:
"ڈاکٹر صاحب!ہمیں بھی خدمت کرنےکا موقع دیں۔ آپ رات کو اس وقت ہمارے پاس آئے، ہمارے لیے، ایسے بغیر کچھ کھائے پئے نہ جائیں۔ "
ڈاکٹرصاحب نے جواب دیا۔ "بہن، آپ کے گھر ضرور رکتا۔ لیکن میں جلدبازی میں اپنی بیگم کو بغیر اطلاع دئے یہاں آگیا—پھر میں اپنا عینک بھی گھر بھول آیا ہوں۔ لہذا اجازت چاہوں گا۔ آپ اپنے شوہر کا خیال رکھئے گا۔ اللہ حافظ!"
سب نے بہت اصرار کیا، لیکن ڈاکٹر صاحب جلدی واپس چلے گئے۔ لہذا صبح جب اشرف صاحب کے دفتر سے فون آئی تو اشرف صاحب نے یہ ساری کہانی فون کرنے والے کو سنا دی۔ اشرف صاحب بستر پرلیٹے رہے، لیکن نیند کی نعمت سے اب وہ محروم ہوگئے۔ ایک خواب انہیں لگاتار کاٹ رہا تھا۔ لیکن انہوں نے خواب میں ایسا کیا دیکھا جس سے ان کی نیندیں اڑ گئیں؟ان کی بیوی، جمیلہ صاحبہ، نے ان سے یہ سوال کیا۔ جس پر انہوں نے جواب دیا:
"دراصل خواب میں میں نے دیکھا کہ میں کہیں جارہا ہوں، رات کا وقت ہے، لیکن ہر جگہ جشن منایا جار ہا ہے۔ ۔ ۔ پھر اچانک۔ ۔ ۔ "
یہ کہہ کر اشرف صاحب رک گئے۔ جمیلہ صاحبہ دریافت کرنے لگیں:
"پھر؟"
"اچانک میرے سامنے۔ ۔ ۔ " (جاری)

باشام باچانی

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔